اشفاق احمد

دس دنیا ستر آخرت

اشفاق احمد کی کتاب زاویہ دوم کے باب “ان پڑھ سقراط” صفحہ نمبر 237 سے اقتباس
“خواتین و حضرات! سقراط کسی اسکول سے باقاعدہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ کسی کالج، سکول یا یونیورسٹی کا اس نے منہ نہیں دیکھا تھا۔ آپ کے حساب سے جو ان پڑھ لوگ ہیں وہ Experiment بھی کرتے ہیں۔ ایک حیران کن بات ہے اور آپ یقین نہیں کریں گے۔ میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں۔ اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔ انہیں سمجھنے کے لئے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ کو سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے۔
وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں۔ اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا اس میں بھی وہ خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ وہ اس طرح سے تھا “دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے۔ انہوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دئے ہیں۔ میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر میں نے ان روپوں کو سوسو اور پچاس پچاس کے نوٹوں میں Convert کروایا جنہیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چوکونوں والے کپڑے میں ہیں۔ عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں کہ “دس دنیا ستر آخرت۔”
آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئی ہے یہ واقعی درست ہے یا پھر ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لے لئے۔ ایک نے پچاس کا نوٹ لیا۔ ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا۔ کچھ ڈالنے والوں نے اس کپڑے میں اپنی طرف سے بھی نوٹ ڈالے۔ اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا کہ گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا۔ ہم نے تو ایسا آج تک دیکھا نہ سنا۔ تو وہ کہنے لگا کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھ ہزار روپے تھے۔

No comments:

Post a Comment

You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.