اشفاق احمد کے ڈرامے “من چلے کا سودا” سے
(پرانے بغداد کے ایک چھوٹےسے صحن اور ایک
کمرے پر مشتمل گھر کے باہر ایک خوبصورت نوجوان بغداد کے درویشوں کا لباس
پہنے آتا ہے اور بہت ہی ہولے سے دروازہ بجاتا ہے۔
کٹ کرکے اندر جاتے ہیں تو کوٹھڑی میں ایک سوکھا لمبا بابا اور ویسی ہی سوکھی اس کی بڑھیا موجود ہے۔ وہ زمین پر اپنے درمیان دھواں اٹھتے شوربے کی قاب رکھے بیٹھے ہیں اور اپنے اپنے قاشقوں سے شوربہ پی رہے ہیں۔ دستک سے چونک کر بابا کہتا ہے)
کٹ کرکے اندر جاتے ہیں تو کوٹھڑی میں ایک سوکھا لمبا بابا اور ویسی ہی سوکھی اس کی بڑھیا موجود ہے۔ وہ زمین پر اپنے درمیان دھواں اٹھتے شوربے کی قاب رکھے بیٹھے ہیں اور اپنے اپنے قاشقوں سے شوربہ پی رہے ہیں۔ دستک سے چونک کر بابا کہتا ہے)
حبیب: جب سے اسامہ گیا ہے، اس دروازے پر ایسی ہی ہوا چلتی رہتی ہے۔۔۔۔گویا دستک دے رہی ہو۔
ام سلمہ: کچھ نہیں۔۔۔سب تیرا وہم ہے یحییٰ بصریٰ کے بیٹے۔ ان دنوں کوئی ہوا نہیں چلتی، نہ پروا نہ پچھوا۔
حبییب: پھر شاید دستک ہو ام سلمہ!
ام سلمہ: جس دروازے پر پچھلے چودہ برس سے دستک نہیں ہوئی ، وہاں اب کدھر سے ہوگی۔
ام سلمہ: کچھ نہیں۔۔۔سب تیرا وہم ہے یحییٰ بصریٰ کے بیٹے۔ ان دنوں کوئی ہوا نہیں چلتی، نہ پروا نہ پچھوا۔
حبییب: پھر شاید دستک ہو ام سلمہ!
ام سلمہ: جس دروازے پر پچھلے چودہ برس سے دستک نہیں ہوئی ، وہاں اب کدھر سے ہوگی۔
(اٹھ کر النگی سے دستر خوان پکڑنے لگتی ہے تو
دستک پھر ہوتی ہے۔ رسی سے کھنچے ہوئے دستر خوان کو وہیں روک کر گردن
دروازے کی طرف گھماتی ہے۔ اب کی بار دستک ذرا زیادہ زور کی ہوتی ہے۔)
ام سلمہ: کون ہے؟
اسامہ: میں ہوں۔۔۔۔میں اسامہ!
حبیب: اسامہ!
ام سلمہ: اسامہ کون بھائی؟
اسامہ: تمہارا بیٹا ماں۔۔۔اسامہ بن حبیب بن یحییٰ بصریٰ
ام سلمہ: ہمارا کوئی بیٹا نہیں بھائی۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔
حبیب: ام سلمیٰ!
ام سلمیٰ: ہمارا ایک ہی بیٹا تھا میاں اور چودہ سال پہلے ہم نے اسے خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔ اب ہمارا کوئی بیٹا نہیں۔
اسامہ: میں وہی تو ہوں اماں اسامہ۔۔۔۔اسامہ بن حبیب۔۔۔چودہ برس بعد تم سے ملنے آیا ہوں۔
ام سلمہ: اپنی چڑھتی جوانی میں ہمارے بیٹے نے خود ہم سے درخواست کی تھی بھائی کہ مجھے اللہ کے راستے کا مسافر بننے کی اجازت مرحمت فرماؤ۔
حبیب: اس وقت ہم نے بخوشی اسے اجازت دے دی تھی۔
اسامہ: میں وہی اسامہ ہوں ابا اور تم سے ملنے آیا ہوں۔
ام سلمہ: ہم یحییٰ بصری کے گھرانے کے لوگ ہیں بھائی! ایک مرتبہ چیز دے کر واپس نہیں لیا کرتے۔ ہم اسے خدا کی راہ میں وقف کر چکے، اب ہمارا کوئی بیٹا نہیں۔۔۔تجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔
اسامہ: میں ہوں۔۔۔۔میں اسامہ!
حبیب: اسامہ!
ام سلمہ: اسامہ کون بھائی؟
اسامہ: تمہارا بیٹا ماں۔۔۔اسامہ بن حبیب بن یحییٰ بصریٰ
ام سلمہ: ہمارا کوئی بیٹا نہیں بھائی۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔
حبیب: ام سلمیٰ!
ام سلمیٰ: ہمارا ایک ہی بیٹا تھا میاں اور چودہ سال پہلے ہم نے اسے خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔ اب ہمارا کوئی بیٹا نہیں۔
اسامہ: میں وہی تو ہوں اماں اسامہ۔۔۔۔اسامہ بن حبیب۔۔۔چودہ برس بعد تم سے ملنے آیا ہوں۔
ام سلمہ: اپنی چڑھتی جوانی میں ہمارے بیٹے نے خود ہم سے درخواست کی تھی بھائی کہ مجھے اللہ کے راستے کا مسافر بننے کی اجازت مرحمت فرماؤ۔
حبیب: اس وقت ہم نے بخوشی اسے اجازت دے دی تھی۔
اسامہ: میں وہی اسامہ ہوں ابا اور تم سے ملنے آیا ہوں۔
ام سلمہ: ہم یحییٰ بصری کے گھرانے کے لوگ ہیں بھائی! ایک مرتبہ چیز دے کر واپس نہیں لیا کرتے۔ ہم اسے خدا کی راہ میں وقف کر چکے، اب ہمارا کوئی بیٹا نہیں۔۔۔تجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔
No comments:
Post a Comment
You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.