اشفاق احمد

باب سوم 2

علاوہ ازیں افسانہ ”شب خون “ کا کردار نگاری کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو یہ افسانہ ”شقو “ ، ”بیٹرس“ دوسرے مریضوں”بھومکا“ ، ”اصغر کامریڈ“ ، ” سپورن سنگھ“، ”شقو کی ماں ، بھائی اور بہن وغیرہ جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔
کہانی کے مرکزی کردار ”شقو “ کو اشفاق احمد نے نہایت خوبصورتی او ر مہارت سے تراشا ہے۔ اور اُس کا مکمل ذہنی اور نفسیاتی تجزیہ کرکے دکھایا ہے۔ ٹی بی کی وجہ سے ”شقو“ تقریباً موت کے دھانے پر کھڑا ہے۔ ایسی حالت میں ایک طرف تو وہ موت اور حالات سے سمجھوتہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن دوسری طرف صحتمند رہنے کی آرزو بھی اُسے شدید کشمکش سے دوچار کرتی ہے۔یوں وہ اپنی بیماری کا بدلہ دنیا سے لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ”بیٹرس“ جس ایک طرف تو وہ محبت کرتا ہے لیکن اپنی جھنجھلاہٹ اور انتشار کی بدولت اس کا صحتمند جسم برداشت نہیں کر پاتا اور اسے ختم کرنے کی سوچتا ہے۔ اس کشمکش کو اُس کے مکالموں میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
”آخر بیٹرس کو کیا حق ہے کہ وہ سرخ و سپید چہرہ لیے ہمارے درمیان گھومتی پھرے۔ خدا نے کیوں اُسے صحتمند بنایا اور ہمیں بیمار ۔ وہ اپنی جوانی ، صحت اور تنومندی کی نمائش کرکے ہمارا مذاق اُڑاتی ہے۔“
ایک طرف تو بیماری نے” شقو“ کوحقیقت پسند بنا دیا اور خوشی سے موت کا انتظار کررہا ہے ،تو دوسری طرف موت اور مایوسی نے اُسے ایک خود غرض انسان بھی بنادیا ہے۔ اس لیے کہ خواہ کچھ بھی ہو زندگی کی امنگ کبھی ختم نہیں ہوتی یوں وہ صحت مند انسانوں سے اپنی بیماری کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔دوسری جانب اسے ”بیٹرس“ سے شدید محبت ہے لیکن اُس سے جدائی کا احساس اُس کوذہنی طور پر کشمکش کا شکار کر دیتی ہے۔ لیکن اس کا آخری بوسہ شاید انسانیت سے بدلے کے بجائے ایک نامکمل او ر لاحاصل محبت کی آخری نشانی بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔
”بیٹرس“ ایک سراپا محبت کرنے والا فرشتہ صفت کردار ہے جو کہ اس کے پیشے کی مناسبت سے عین مطابق ہے۔اُسے اپنے تمام مریضوں سے محبت ہے۔ لیکن ”شقو “پر اس کی زیادہ توجہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ”شقو“ سے شدید محبت کرتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ”کیپٹن عباس “ کے بعد ”شقو“ ہی ایساشخص ہے جس سے اُس کوحد درجہ محبت ہے۔ اس لیے وہ چاہتی ہے کہ شقو صحت یا ب ہوجائے اور وہ اسے اپنے پاس ہی رکھے ۔”شقو “ کے لیے وہ کئی دفعہ خون کا عطیہ دیتی ہے اور دوسری طرف اسے ”شقو“ کے حملے کا انتظار بھی ہے۔ اُس کے ہونٹوں پر ”شقو“ کے حملے کے بعد کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اشفاق احمد نے اس کردار میں ایک نرس کے ساتھ ساتھ ایک عورت کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو اپنے پیشے کے ساتھ تو مکمل طور پر نباہ کر رہی ہے لیکن اس کے اندر کی عورت کا دل بھی دھڑک رہا ہے جس میں چاہے جانے کی خواہش موجود ہے۔ خواہ اس کا چاہے جانے والا قریب المرگ ”شقو“ ہی کیوں نہ ہو۔
دوسرے مریضوں ”بھومکا‘ ‘ ،”اصغر کامریڈ“ ، ”سپورن سنگھ “ جیسے کرداروں کے ہاں بھی اس طویل اور جان لیوامرض نے زندگی کے متعلق ایک حقیقت پسندانہ سوچ پیدا کردی ہے۔اس لیے ان کو اپنے رشتہ داروں سے کوئی گلہ نہیں کہ کوئی انہیں مرنے کے بعد یاد کرے گا یا نہیں یا زندہ رہنے کے باوجود اُن کاکوئی پوچھنے والا کیوں نہیں لیکن ایک بات جو ان تمام کرداروں میں مشترک ہے وہ یہ کہ موت کی فضاءمیں ہر دم گھٹ گھٹ کر سانس لینے والے یہ کردار قنوطیت کا شکار نہیں۔ بیماری نے اُن کا سار ا خون نچوڑ لیا ہے لیکن اُن کے دل پھر بھی دھڑک رہے ہیں ۔ جینے کی امید ان کے ہاں پھر بھی موجود ہے۔ اس لیے ”بھومکا“ کو امید ہے کہ آنے والی گرمیوں تک وہ ضرور زندہ رہے گا اور ”سپورن سنگھ“ بھی خوش ہے کہ اُسے زندہ رہنا ہے اوربیماری سے لڑنا ہے۔
اس کے علاوہ ”شقو“ کے رشتہ دار وں میں اُس کی” ماں“ ،” بھائی“ ،” بہن “وغیرہ سب اُسے مردہ تصور کرچکے ہیں اور ایک خودغرضانہ سوچ رکھتے ہیں۔ اس کے بھتیجے ”خالد“ کو چونکہ” شقو “سے شدید محبت ہے اس لیے اُن کے مکالموں سے بھی اس محبت کا غیر محسوس اندا ز میں پتہ چلتا ہے۔ باقی رشتہ دار خواہ” ماموں“ ہوں یا” چچا“ سب معاشرتی مجبوریوں کے تحت ”شقو “سے ملنے پر مجبور ہیں ۔اور اس کی دولت اور جائیدا د کے جانے کا غم کرتے رہتے ہیں۔ بے شک اشفاق احمد نے اس افسانے میں معاشرتی حقائق کو خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے۔
اشفاق احمد کا افسانہ ”توتا کہانی“ ایک مکمل رومانوی افسانہ ہے جس میں مزاح کی ہلکی سی چاشنی بھی موجود ہے۔ کرداروں کے حوالے سے افسانہ ”حامد“، ”خجستہ “ ، ” حامد کا ساتھی“ اس کا ”باورچی “ ”خجستہ کی ماں“ ”پھوپھی“ اور حامد کے ہاسٹل کے دوستوں جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔ لیکن” حامد“ اور” خجستہ“ اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔
”حامد“ایک چلبلا اور شوخ نوجوان جسے اپنے پڑوس کی لڑکی سے محبت ہے۔ اور اسکو یہ بھی احساس ہے کہ اس کی پڑوسن”خجستہ “ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔ لیکن اپنے گرد بنے گئے خود ساختہ خول سے نکل کر اظہار نہیں کر سکتی ۔”خجستہ “ جب بھی چھت پرچڑھتی ہے تو حامد کو متوجہ کرنے کے لیے اپنی ماں کو ضرور پکارتی ہے۔ اور ”حامد“ خود ”شیلے“ کے شعروں سے چھت پر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے۔ آخر کار ”حامد “ اس آنکھ مچولی سے تنگ آکر ”خجستہ “ سے ملنے کی ٹھان لیتا ہے۔ اور ملاقات کے بعد وہ ”خجستہ “ کے دل سے اس طوطے کو نکال لیتا ہے جس کی کہانیوں کی وجہ سے وہ اپنے محبوب سے نہیں مل سکتی ۔ اور آخر میں ”حامد“ محبت میں قربانی پیش کرتے ہوئے ”خجستہ “ کی عزت کی خاطر مقبرے کے مینار سے کود پڑتا ہے۔ ”حامد“ کی باتیں اور اس کے مکالمے اس کی سوچ اور قابلیت کی بہترین دلیل ہے۔ وہ جس طریقے سے ”خجستہ“ کی تمام غلط فہمیوں کو دور کرکے اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے ۔قاری کو اس کی ذہانت اور محبت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
” میں نے کہا ۔”تم اُسی سے منسوب ہو جس کا انتظار تم نے سائنس روم کی سیڑھیوں پر کیا۔ تم اسی سے بیاہی جائو گی جس کے لیے تم لنکا کی پہاڑیوں میں ماری ماری پھری ہو۔ تمہارے پھوپھی ذاد بھائی کا وجود محض ایک حادثہ ہے۔ موٹر پہلے زمزمہ کے چبوترے سے ٹکراتی ہے حادثہ بعد میں اسے الٹا کر اس کے مڈ گارڈ اور بتیاں توڑ دیتا ہے۔ (١)
کہانی کے دوسرے مرکزی کردار ”خجستہ “ کی ذہنی کیفیت بالکل اس شعر جیسی ہے

کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے سے تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی

عورت کے دل کے اندر مرد کے لیے ایک فطری محبت اور کشش موجود ہے ۔ ہر لڑکی کے ذہن میںایک سپنوں کا راج کمار ضرور ہوتا ہے لیکن مرد کے مقابلے میں عورت کے لیے اظہار کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اُس کے دل کے اندر کا طوطا اسے بغاوت کرنے سے روکتا ہے۔ اور وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے۔ معاشرتی پابندیاں خصوصی طور پر اس کے پائوں میں زنجیر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے ”خجستہ “ ”حامد “ سے محبت کرنے کے باجود ایک مجبور اور بے بس لڑکی نظر آتی ہے۔ وہ بہانے بہانے سے چھت پر جا کر کسی نہ کسی طریقے سے اپنی محبت ”حامد “ پر ظاہر ضرور کرتی ہے لیکن کھل کر اظہار اس کے لیے ناممکن ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ ذہنی طور پر کشمکش کا شکار نظر آتی ہے۔ لیکن مقبرہ جہانگیر میں ”حامد “ سے ملاقات کے بعد اُس کے اندر کا خوف اور ڈر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔ اور اُس کے بعد وہ محبت میں کسی بھی قسم کی قربانی سے نہیں چوکتی ۔یوں افسانے کے آخر میں محبت کے لیے اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔
دوسرے ضمنی کرداروں میں ”حامد “ کا ساتھی کہانی میں ایک مزاحیہ پہلو سامنے لاتا ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کو بھگانے کے چکر میں اُس کی مرغی چوری کرکے لے اڑتا ہے اور موج اڑاتا ہے۔ وہ آج کل کے عاشقوں کی ایک مکمل تصویر ہے جن کی نظر اپنی محبوبہ سے زیادہ اُس کی مرغی یعنی دولت پر ٹکی رہتی ہے۔
”خجستہ “ کی ماں ایک سخت گیر عورت ہے جو دل کی مریضہ ہے ”خجستہ “ کے ڈر اور خوف اور کھل کر اظہار نہ کرنے کی وجہ صرف اور صرف اس کی ماں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ محبت میں آگے بڑھنے سے قاصر رہتی ہے۔
فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو افسانہ ” عجیب بادشاہ “” زمان“ کی کہانی ہے اس میں مرکزی کردار” زمان“اور ”راوی“ کا ہے اور اس کے علاوہ ”سیما“، ” سہیل “ اور”پروفیسر “ وغیر ہ بھی کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن اگرغور کیا جائے تو کردار نگاری کے حوالے سے سبھی کردار اہم ہیں کیونکہ اگر ان میں سے ایک کو بھی نکال دیا جائے تو کہانی کا تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ گویا کہ ہر کردار کہانی کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔
جہاں تک ”زمان ‘ ‘ کے کردار کا تعلق ہے ۔ تو یہ کردار اشفاق احمد نے انتہائی باریک بینی ،ذاتی مشاہدے اور نفسیاتی تجربے کے بل بوتے پر تشکیل دیا ہے ۔ کہ اس میں خودداری کس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یعنی وہ بڑی سے بڑی بات کے لیے اپنی خوداری کو نقصان نہیں پہنچاتا ۔ جس میں اُس کی نسلی خصوصیت کا بڑا دخل ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکیے نے بے رنگ خط لا کر کہا:
” دو آنے دیجیے “
اُس نے خط کھولے بغیر جواب دیا
”خط واپس کرو میں نہیں لیتا“
میں نے کہا
”یار مجھ سے لے لو پھر لوٹا دینا “ پوچھنے لگا ”کیوں لوں ؟“
میں نے کہا ، ”اس لیے کہ خط لے سکو“ بولا ” میں نہیں لیتا “ (١)
اس کے علاوہ دوسرا بڑا کردار ”روای کا بھی ہے ۔ کہ وہ کس طرح پس پردہ رہ کر پیش منظر رہتا ہے۔اور قاری کو کہانی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔
ضمنی کرداروں میں ”سیما“ اور ”سہیل“ کے کردار بھی اہم ہیں ۔ کیونکہ ان دو کرداروں کی وجہ سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ ”سیما “ کی خاطر زمان کالج چھوڑ دیتا ہے ۔ لیکن پھر بھی ”سیما“ اس کی محبت میں اُس کے پیچھے جاکر اُس سے شادی کر لیتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی خاطر وہ شہر ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کردار کی وجہ سے اشفاق احمد ماں بیٹے کی محبت کاذکر کرتا ہے کہ ایک ماںبچے کے لیے دودھ گرم کرتی ہوئی جان دیتی ہے۔
جہاں تک ”سہیل “کے کردار کا تعلق ہے تووہ ضمنی ہونے کے ساتھ ساتھ لازمی بھی ہے کیونکہ اس کردار کی وجہ سے ہی اشفاق احمد ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب بچے بیمار ہوتے ہیں تو ماں باپ کا کیا حال ہوتا ہے۔ اس طرح ہر کردار کی ظاہر ی اور باطنی کیفیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔” سہیل “کو اپنی ماں سے شدید محبت ہے اور اس جدائی کے کرب سے گزرتے ہوئے وہ اپنی جان دے دیتا ہے۔
”بندرا بن کی کنج گلی میں “ کا مرکزی کردار ”نمدار “ ایک مشکل زندگی گزارتا ہے ۔وہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا ہے ۔ خصوصاً کالج میں اُسے ہر غریب آدمی کی طرح دوہرے انداز میں زندگی گزارنی پڑتی ہے اور اپنی غربت کو چھپانے کے لیے اور اپنے آپ کو امیروں کے درمیان ایڈجسٹ کرنے میں اُسے کتنے ہی جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ”کلثوم“ کی محبت میں آگے بڑھنے سے ڈرتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اُس کی غربت کی وجہ سے شاید”کلثوم“ اُس سے دور ہو جائے گی ۔ اس کردار میں تمام تر قابلیت اور چالاکیوں کے باوجود اظہار کی طاقت نہیں اس لیے وہ صرف ”کلثوم“ کی بوسہ شدہ کتاب کی زیارت کرکے ہی سکون محسوس کرتا ہے ۔ آخر میں جب تمام تر کوششوں کے باوجود اُس کو اپنی محنت کا پھل نہیں ملتا اور وہ سندھ جاکر معمولی نوکری کر لیتا ہے تو اس مقام پر اُس کے ہاں قنوطیت کی کیفیت نظر آتی ہے۔
اس کہانی کا سب سے اہم کردار ”کلثوم “ کا ہے جو کہ جدید دو ر کے انسان کی مکمل تصویر ہے۔ اس امیر زادی کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ خوش نہیں کیونکہ وہ عام لوگوں میں رہنا پسند کرتی ہے عام لوگوں کی طرح بولنا چاہتی ہے۔ لیکن اعلیٰ سٹیٹس اور امیر گھرانے سے تعلق اُس کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ اپنے ذہنی انتشار کی بدولت مطالعے میں بھی وہ پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ایک جدید معاشرے کا فرد ہونے کی وجہ سے یہ کردار غیریقینی کی کیفیت سے دوچار ہے ۔
” وہ ادب کی شاہراہ پر چلتے چلتے افادی الاقتصادی بن گئی اور شیکسپیئر ، ہارڈی اور کیٹس کو ایک دم بھلا دیا ۔ یونیورسٹی لائبریری میں انگریزی ادب کی الماریوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اُس نے ایک مرتبہ کہا ۔” آپ کو پتہ ہے انفرادی جذبات کی ترجمانی کرنے والا سارا ادب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ (١)
اپنی مجبوریوں کی وجہ سے وہ”نمدار “ سے محبت کرنے کے باجود اُسے حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ دراصل یہ کردار ایک ایسی بے چین روح ہے جسے مادی زندگی سے نفرت ہے ۔ اُس کے گھر میں چونکہ دولت کی ریل پیل کی وجہ سے جذبے ختم ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ کردار روحانی اور جذباتی رشتوں کی تلاش میں ہے۔
”میرا کوئی ساتھی نہیں۔ ہمارے خاندان میں بہت سارے آدمی ہیںمگر سارے کے سارے تاجر ۔ ان کے یہاں ہر قسم کا سودا ہے لیکن لطیف جذبات کی کمی ہے۔ کوئی ایسا ذہن نہیں جو میرا ساتھ دے سکے ۔“ (٢)
آخر میں کلثوم کی درناک موت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صرف موت ہی اس کو زندگی کے عذابوں سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب ہو تی ہے۔ ان مرکزی کرداروں کے علاوہ ”نمدار “ کی ماں ”چچا“ ، کالج کے لڑکے لڑکیاں ، چوکیدار کی لڑکی ، وغیرہ ایسے ضمنی کردار ہیں جو کہانی کواختتام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
اشفاق احمد کا افسانہ ”بابا“ ایک پراثر طویل المیاتی افسانہ ہے جو کہ شروع سے لے کر آخر تک قاری کو اپنے سحر میں جھکڑے ہوئے مختلف کیفیات سے دوچار کرتا ہے۔ جہاں تک فن کردار نگاری کا تعلق ہے توافسانے میں مصنف نے کردار نگاری کے تمام اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند اعلیٰ خوبصورت اور بڑے کردار تخلیق کیے ہیں۔ افسانے کے مرکزی کرداروں میں ”ایلن “ ،”وحید“ ،”بابا“ اور”مسعود“ شامل ہیں۔ جو کہ کہانی میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
کہانی کا عنوان چونکہ ”بابا “ ہے اس لیے ”بابا “ کے کردار پر اشفاق احمد نے اپنی تمام تر فنی توانائیاں صرف کی ہیں۔ ”بابا“ ایک مشرقی بزرگ کی مکمل تصویر ہے جسے اپنے بچوں سے اپنی جان سے زیادہ پیار ہے اور جس طرح عام طور پر دیکھا گیا ہے ہمارے بزرگ ایک غیر محسوس طریقے سے اپنے عقائد اور روایات کو اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ ”بابا“ بھی انہی بزرگوں میں سے ہیں۔یوں ”بابا‘ ‘ ”مسعود “ کو کلمہ سکھانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اور کبھی ناصحانہ انداز میں اپنی مشرقی روایات کو اُس کے ذہن میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ ”بابا“ چونکہ اپنے آپ کو خاندان کاسربراہ اور بڑا تصور کرتے ہیں ۔ اس لیے اُسے ”ایلن “ کی روک ٹوک بالکل پسند نہیں لیکن ”ایلن “ کے لیے اس کا غصہ وقتی ہے جو کہ کچھ دیر رہتا ہے اور خود بخود تحلیل ہو جاتا ہے ۔
”بابا“ ایک ایسے بزرگ ہیں جن کا نصب العین صرف اپنے خاندان کی بقا ہے۔ اپنے بیٹے کے لیے وہ اپنی آبائی زمین اس لیے بیچ ڈالتے ہیں تاکہ وہ ڈاکٹر بن کرایک اچھی زندگی گزار سکے۔ ”مسعود“ کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیںاور مرتے دم تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ خود تو بلوائیوں کے نیزے کھاتے ہیں اور پوتے پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے ۔ اسی طرح ایک سادہ لوح دیہاتی کی تمام خصوصیات بھی ان کے ہاں موجود ہیں ۔ وہ توہم پرستی کی وجہ سے اپنے بیٹے کو ایک منحوس گھوڑا خریدنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ”بابا“ ایک ایسے مشرقی بزرگ کی تصویر ہے جس کا نصب العین اپنی نسلوں کی بقا اور اچھی تربیت ہے۔
”بابا “ کا بیٹا ”وحید “ اپنی مٹی اور فطرت سے حد درجہ محبت رکھتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر بننے کے بعد ولایت سے واپسی پر وہ فطرت اور اپنی زمین کی طرف واپس لوٹتا ہے۔ اُسے ڈاکٹر ی سے کوئی لگائو نہیں بلکہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اپنی زمین اور فطرت کے نزدیک رہ کر اس مادہ پرست دنیا سے دور اپنی ”ایلن “ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔ اُسے ”ایلن“ کے دکھ کا بھی احساس ہے ۔ جس کا ازالہ کرنے کے لیے وہ واپس دنیا کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور”ایلن“ کی خواہش کے آگے گھٹنے ٹیک کر فوج میں اپنی خدمات پیش کر دیتا ہے۔” ایلن“ کی محبت ایک طرف تو اُسے جانے نہیں دیتی اور دوسری طرف اپنا مستقبل سنوارنے کی فکرنے اسے ایک ذہنی کشمکش کی کیفیت سے ددچا ر کر رکھا ہے۔ اس کی اس کیفیت کا اندازہ ریلوے سٹیشن سے روانگی کے وقت اس حالت زاد دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
”ایلن “ ایک محبت کرنے والی وفا شعار بیوی ہے وہ اپنی محبت کی خاطر اپنا خاندان اپنا گھر اپنا ملک چھوڑ کر” وحید“ کے ساتھ اُس کے گائوں میں زندگی گزارتی ہے۔ایک طرف اگر شوہر کی محبت ہے تو دوسری طرف اپنے گھر اور وطن کی یاد نے اُسے اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ وہ جذبوں پر یقین رکھنے والا کردا ر ہے اس لیے اُسے اپنے شوہر ، بیٹے اور بابا سے شدید محبت ہے لیکن دوسری جانب ایک عورت ہونے کے ناطے اُسے اپنے مستقبل کی بھی فکر لاحق ہے چونکہ ”وحید“ کی کھیتی باڑی سے اُن کا مستقبل محفوظ نہیں اس لیے وہ اُس سے دوبارہ ڈاکٹری جوائن کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ اور انگریز افسر کے کہنے پر جب ”وحید “ اپنی خدمات پیش کرتا ہے تو اُس وقت ”ایلن “ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ ”وحید “ کے بغیر وہ زندہ رہنے کا تصوربھی نہیں کر سکتی اس مقام پر وہ کشمکش کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اور سوچتی رہتی ہے کہ کاش وہ” وحید “سے نہ ملی ہوتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔آخر کار اس کی زندگی میں پچھتاوا ہی پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہمدرد عورت بھی ہے۔ اشفاق احمد کے دوسرے افسانوں کے کرداروں کی طرح اُسے بھی صرف انسانوں سے نہیں بلکہ ساری دنیا کی مخلوق سے حددرجہ محبت ہے۔ اسی لیے ”چتلی“ کے بچھڑے کو بچانے کے لیے وہ اپنی جان کی بازی لگادیتی ہے۔ اور پھر اُسی وجہ سے بیمار ہو کر اپنی جان دے دیتی ہے۔
اس کے علاوہ ”مسعود “ بھی کہانی کا ایک اہم کردار ہے یہ کردار کہانی کے اختتام پر قاری کے ذہن پر ایک سوگوار اور غمگین کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ یہ کردار اپنی معصومانہ حرکات اور باتوں کے ذریعے کہانی میں اپنے رنگ بھرتا چلاجاتا ہے۔ اُس کے بے تکے لیکن ذہانت سے بھرپور سوالات ایک طرف تو اس کی معصومیت کی نشاندہی کرتے ہیں اور دوسری جانب اُس کو ایک ذہین بچہ بھی ثابت کرتے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ پوتے کو اپنے دادا سے شدید محبت اور انسیت ہوتی ہے اور یہی انسیت اور محبت اس کردار کے دل میں دادا کے لیے موجود ہے۔اس کردار کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اکثر اپنے دادا کواپنے سوالات کے ذریعے لاجواب کر دیتا ہے:
”بابا تارے رات کو کیوں نکلتے ہیں وہ دن کوکیوں نہیں نکلتے “
”دن کو نہیں نکلتے بیٹا “ بابا نے سمجھا کرکہا
”بابا ہماری بیر ی کے پتے ہرے کیوں ہیں۔“
”پتے ہرے ہی ہوتے ہیں بیٹا“
”بابا گھوڑے ہرے کیوں نہیں ہوتے ۔“
کہانی میں جانوروں کو بھی مختلف نام دے کرکرداروں کے روپ میں ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ”چتلی“ ، اس کا بچھڑا اور گھوڑے وغیرہ جبکہ گائوں کے دیہاتی لوگ اور ”وحید “ کے گھر میں کام کرنے والے ملازم ضمنی کردار ہونے کے باجود کہانی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
مجموعے کا افسانہ ”پناہیں “ ایک نفسیاتی اور المیاتی افسانہ ہے ۔ جس میں ”آصف“،” آصف کا باپ “،” ڈاکٹر صاحب“ اور” آصف “کی ماںمرکزی کرداروں کی صورت میں سامنے آتے ہیں جبکہ ”مولا بخش“ ، ”وحید“ ، ”اسلم کی ماں“ اور کمپاونڈر ضمنی کرداروں میں شمار ہوتے ہیں ۔
”آصف“ کا کردار نفسیاتی طور پر ایک ارتقائی عمل سے گزرتا ہے۔ اپنے ماں باپ کے رویے کی وجہ سے اس کی ذہنی طور پر جو پرورش ہوئی ہے وہ سب پرعیاں ہے۔ یہ معصوم بچہ صرف اور صرف اپنے ماں باپ کے اختلافات کا شکار ہو کر مرجھائے ہوئے پھول کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ حالانکہ افسانے کی ابتداءمیں وہ ایک ہنس مکھ بچہ ہے۔ جس میں عام بچوں کی طرح تمام شرارتیں اور معصومیت موجود ہے۔ اس لیے وہ کبھی اپنی ماں پاس جانے کی ضد کرتا ہے اور کبھی اپنے باپ کے پاس رہنا چاہتا ہے۔ اُس کے کھیل شرارتوں سے بھر پور ہیں۔ جو کہ اُس کی ذہانت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن اچانک اپنی انا کی تسکین کی خاطر جب اس کا باپ اُس پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اس کے بعد وہ معصوم ”آصف “ایک سنجیدہ اور مکمل نوجوان دکھائی دینے لگتا ہے۔ اور یوں ”آصف “کے گرد اپنے با پ کی ایک خوفناک شبیہ ابھرتی ہے جس کے خوف سے ساری زندگی وہ پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بہادری اور ہمدردی اس کردار کا نصب العین ہے۔ اس لیے جوان ہوجانے ے بعد وہ دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی دائو پر لگا دیتا ہے۔
”آصف “ کا باپ یعنی ”ڈاکٹر صاحب“ اپنی انا کا غلام ہے اور اپنی اسی انا کی جنگ میں وہ اپنے بچوں کی قربانی دے دیتا ہے۔ اس کی اپنی بیوی سے کسی صورت میں نہیں بنتی ۔ ”آصف“ سے اپنے دوسرے بچوں کی بہ نسبت صرف اس لیے زیادہ محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کے پاس نہیں رہنا چاہتا ۔ لیکن جب ”آصف“کی ماں ایک دن ”ڈاکٹر صاحب “ کو سنانے کے لیے” آصف“ کو طعنے دیتی ہے تو ڈاکٹر صاحب غصے سے پاگل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ” آصف “کی ایسی پٹھائی کرتے ہیں کہ جس سے ”آصف“کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ اُس کے اندر جھوٹی انا اور تفاخر کا احساس اس کی باتوں سے آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے:
” ایسی دوں فطرت عورت میرے منہ آئے ایک سید زادے کے منہ جس نے آج تک کسی سے تو نہیں کہلوایا، تو نہیں کہلوایا، حرام زادے تو نہیں کہلوایا۔“ (١)
”ڈاکٹر صاحب“ کو اپنی غلطی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ وہ سرتوڑ کوششوں کے باوجود” آصف“ کی معصومیت اور بچپنا واپس لوٹانے میں ناکام رہتا ہے۔ آخر کار ”آصف“کی جدائی کے بعد وہ اپنی یادوں کا اسیر ہو جاتا ہے اور کسی صورت میں اسے قرار نہیں آتا ۔ اس لیے وہ اپنا تزکیہ کرنے کے لیے انجانی منزل کی طرف نکل جاتا ہے۔ اور آخر کار بچوں کے سکول میں پہنچ کردم لیتا ہے۔
”آصف“ کی ماں بھی اُس کے باپ کی طرح ایک سنگدل اور اپنی انائوں کی اسیر عورت ہے ۔ اُسے اپنے بچوں کی کوئی فکر نہیں وہ تو بس اپنے شوہر سے جیتنا چاہتی ہے۔ اور جیت کی یہی لگن اُس کے بچوں کو اپنے باپ سے متنفر کر دیتی ہے۔ اُس ”آصف“ سے اس لیے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ اپنے والد سے زیادہ لگائو رکھتا ہے۔ اس کی باتوں اور طعنوں سے اُس کے اندر کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا باآسانی پتہ چلتا ہے۔ اور قاری یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے انا کے خول میں بند ہو کرشوہر کو ہرانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی باتوں سے جھنجلاہٹ اور روکھا پن صاف محسوس کیا جاسکتا ہے:
” کس کی بکری ، کون ڈالے گھاس؟ باپ کا دل اور ایسا کٹور ، پھر کوئی تجھ سے پوچھے جب وہ میر ی نہیں سنتا تو تیری کیسے مانے گا؟ ایک تو ے کی روٹی کیا جھوٹی کیا موٹی ۔ اُسے اپنے کھل کھیلنے سے فرصت ہو تو تیری خبر گیری کرے۔ وہاں کی چپڑی سے یہاں کی روکھی اچھی۔“ (٢)
ٍ ”ایک محبت سو افسانے “ کے آخری افسانے ”امی “ کا کردار نگاری کے حوالے سے تجزیہ کیاجائے تو یہ افسانہ ”مسعود “ ، اس کی ”ماں“ اس کے سوتیلے پاپ”چچا“ ، ”امی “ ، ”دیدی“ ، ”گلریز“ جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ افسانے میں ”مسعود“ کے ساتھ جوا کھیلنے والے دوست بھی افسانے کے ضمنی کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سبھی کرداروں میں”امی “ اور ”مسعود “ کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ اشفاق احمد نے مذکورہ افسانے میں کردار نگاری کرتے ہوئے ایک طرف تو فن کردار نگاری کے تمام قواعد و ضوابط کا لحاظ رکھا ہے اور دوسری طرف ہر کردار کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے اس کی شخصیت کو اجاگر کرکے مکمل کامیابی کا ثبوت دیا ہے۔
”مسعود “ ایک ایسا نوجوان ہے جو کہ شدید قسم کی احساس کمتری کا شکار ہے ۔ اور اپنی ماں کی دوسری شادی اور سوتیلے باپ کے رویے نے اس کو اتنا منتشر کر دیا ہے کہ وہ اپنی ماں کو دل ہی دل میں گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا :
” چچا جیسے بے ہودہ آدمی سے شادی کرکے اس کی ماں اس کی نگاہوں میں بالکل گر چکی تھی اور چچا کی طعن آمیز باتوں کا بدلہ وہ ہمیشہ اپنی ماں کو گالی دے کر چکایا کرتا ۔“ (١)
گھر کے ماحول کی وجہ سے اس کی جو ذہنی تربیت ہو تی ہے وہ آگے چل کر شدید قسم کی کشمکش اور انتشار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اور حالات اُسے ایک برا انسان بنانے پر مجبور کردیتے ہیں۔
” چچا کی بخیل فطرت اور ماں کی لاپرواہی اس کی آزادانہ زندگی پر ایک عجیب طرح سے اثر انداز ہوئی وہ پہلے جس قدر گم سم رہتا تھا اب اسی قدر ہنسوڑ ہو گیا تھا اور اپنے بچپن کی غریبی کا مداوا کرنے کے لیے اُس نے جوا کھیلنا شروع کردیا تھا۔“ (٢)
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اُس کے اندر کا انسان مکمل طور پر مرا نہیں ۔ اس لیے جب وہ ”امی “ کے سامنے جھوٹ بولتا ہے تو اسے مکمل طور پر احساس ہے کہ وہ بر ا کر رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے کبھی اس کے حلق میں چائے کانٹے کی طرح چھب جاتی ہے اور کبھی وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ یوں آخر میں اس کے اندر کا انسان ”امی “ کی پریشانی برداشت نہیں کرپاتا اور ”امی “ کے لیے پیسوں کے بندوبست کی تگ و دو شروع کر دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ”امی“ کی پریشانیوں کو کسی نہ کسی صورت میں ختم کر دے ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر ذہنی کشمکش اور کمزریوں کے باوجود وہ ایک اچھا انسان ہے لیکن اُس کے حالات نے اسے برا بنا دیا ہے۔
جہاں تک ”امی “ کے کردار کا تعلق ہے تو وہ بیٹے کی جدائی کے المیے میں گرفتا ر ہے۔ اور اُسے ”مسعود “ میں بیٹے کی شبیہ نظرآتی ہے ۔ ”امی “ ایک سراپا محبت کرنے والا کردار ہے۔ اُسے نہ صرف اپنے بچوں سے محبت ہے بلکہ دوسروں سے بھی وہ اتنی ہی محبت سے پیش آتی ہے۔ وہ ”مسعود“ کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔ ”مسعود “ کی ماں کی طرح اُس نے دوسری شادی نہیں کی لیکن پھر بھی اپنے بچوں کی تربیت میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتی” مسعود“ کو وہ اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی ہے ۔ یہاںتک کہ جب ” گلریز“ کی طرف سے پیسوں کے تقاضے کا خط آتا ہے تو وہ ”مسعود“ کو نہیں دکھاتی کیونکہ وہ اسے غمزدہ اور پریشان نہیں دیکھ سکتی وہ اپنے مسائل اور غم اپنے آپ تک محدود رکھتی ہے۔ اور دوسروں کو آرام اور محبت دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔
”مسعود “ کی ماں ایک مجبور اور لاچار قسم کی مشرقی عورت ہے جس نے صرف اور صرف اپنے بیٹے کی صحیح پرورش کے لیے دوسری شادی کی ۔ لیکن شادی کے بعد جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے اس کی توجہ اپنے بیٹے سے ہٹ جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے اپنے بیٹے سے محبت نہیں رہی بلکہ وہ مجبور ہے کیونکہ اسے (چچا) جیسے شخص کے ساتھ نباہ کرکے اپنے گھر کو بچانا ہے ۔اس کردار کی اپنی معاشی اور گھریلو مجبوریاں ہیں جو کہ اس کو اپنے بیٹے سے دور کر دیتی ہےں۔
اشفاق احمد نے ”چچا‘ ‘ کے کردار کو بڑی خوبصورتی سے تراشا ہے جیسے کہ سوتیلے باپ ہوتے ہیں۔ اس کردار کے ذریعے اشفاق احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پرائی اولاد کبھی اپنی نہیں ہو سکتی ۔ معاشی مسائل نے اس شخص کو چڑچڑاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ جس کا سارا زور وہ ”مسعود “ پر نکالتا ہے۔ ”مسعود “ کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں اس شخص کا بہت اہم کردار ہے چڑچڑاہٹ کی وجہ سے اس کردار کے مکالمے بھی طنز اور غصے سے بھر پور ہیں۔
” اس کے چچا نے غر ا کر کہا”تجھے دونی دوں! تجھے ناداں دوں!میرے بورے جو ڈھوتا رہاہے میرے ساتھ جو کھیلتا رہا ہے۔“ (١)
”دیدی“ ایک مغرور قسم کی لڑکی ہے جو کہ اپنی ماں(امی ) کی بالکل متضاد ہے۔ اسے اپنی تعلیم کا زعم ہے اور زیادہ مطالعے نے شاید اسے حقیقت پسند بنا دیا ہے۔ اس لیے وہ اپنی ماں کی طرح جذبوں پر یقین نہیں رکھتی جس کی وجہ سے ”مسعود “کو وہ ہر وقت شک کی نظر سے دیکھتی رہتی ہے۔
مسعود کے جوا کھیلنے والے دوستوں کی حرکات و سکنات اور مکالموں سے اُن کی اخلاقی اور مالی حالت کا باآسانی پتہ چلتا ہے۔
”رکنے نے پوچھا
”پھر کچھ ہو جائے چھوٹی سی بازی؟“
”واہ چھوٹی کیوں لالا“ کانے نے کہا ”بازی ہو تو اگڑ بم ہو نہیں تونہ سہی“
رکنا بولا”ہم تو اگڑ بم ہی کھیلتے ہیں لیکن بابو ذرا نرم ہے اس لیے لحاظ کرنا ہی پڑتا ہے۔“(١)

مکالمہ نگاری :۔

افسانوی ادب میں مکالمے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ مکالمہ دراصل دو افراد کے درمیان گفتگوکا نام ہے۔ اب بات رہی افسانوں ، ناولوں ، ڈرامہ اور داستانوں میں اس کے استعمال کی تو وہ اس ناول نگار یا افسانہ نگار پر منحصر ہے کہ وہ کردار کے شخصی تناسب سے اس کے لہجے کے لیے کون سے مکالمے اختیار کرتا ہے۔ لیکن اس کی مہارت اور خدادا د تجربے کی بناءپرہوگا کہ ایک پڑھے لکھے کردار کے مکالمے کس طرح ہونے چاہیے اور ایک ان پڑھ کردار کے مکالمے کس طرح ہونے چاہیے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں کرداروں کے مکالمے اور اُن کی گفتگو کرنے کے انداز کا بڑا خیال رکھا گیا ہے۔ اور ان کے افسانوں کے کرداروں نے اسی قسم کی گفتگو کی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ان کے مکالموں کالب و لہجہ فطری اور سادہ ہے ۔ جس میں موقع اور محل کے مطابق کرداروں کے جذبات اور احساسات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اور کرداروں کی اندر کی دنیا کا عالم نمایاں کیاگیا ہے ۔ اشفاق احمد کے افسانوں کی بڑی اور بنیادی خصوصیت یہی مضبوط مکالمہ ہے۔ ۔ ”ایک محبت سو افسانے “ میں شامل سارے افسانے فن مکالمہ نگاری کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔ افسانہ ”سنگ دل“ میں کامیاب مکالمہ نگاری سے کام لیا گیا ہے۔ افسانے میں ”پمی “ کا کردار ایک مضبوط کردار ہے جس کے مکالموں میں ایک رومانوی احساس کے ساتھ ساتھ بے نیازی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے جیسے محبت کا جام بار بار چھلک رہا ہو:
” میں بوکھلا گیا”محبت لیکن یہ تمہیں کہاں سے یاد آگیا ؟“
”ایسے ہی ۔۔جب ہمارے سکول میں ڈرامہ ہوا تھا تو نجمہ اینٹنی بنی تھی بتائو نا تمہیں اس سے محبت تھی ؟“
میں نے جواب دیا ”نہیں“
”لیکن اسے تو تھی “
”ہوگی ۔۔۔کون ہے دنیا میں جو یہ حماقت نہیں کرتا“
اس کا لہجہ ایک دم بدل گیا۔گھٹی ہوئی آواز میں اس نے میرے ہی الفاظ دہرائے ”ہاں، کون ہے دنیا میں جو یہ حماقت نہیں کرتا۔“ (١)
اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی نقطہ نظر سے کردار نگاری کے بعد مکالمہ نگاری بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ مکالموں کے ذریعے پڑھنے والے کرداروں کا مافی الضمیر معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار کا فکری پیغام بھی پہنچتا ہے۔ مکالمہ نگاری کے ذریعے کہانی لکھنا قدرے مشکل کام ہے۔ جہاں تک ”ایک محبت سو افسانے “ کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اشفاق احمد نے بعض افسانوں میں کہانی راوی کی زبانی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن جہاں کہیں انھوں نے مکالمہ استعمال کیا ہے وہ حسب حال اور موقع محل کے مطابق ہے۔ مثلاً افسانہ”امی “ کا مکالمہ نگاری کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کرداروں کے مکالموں سے ہی ان کی ذہنی حالت کا مکمل طور پر پتہ چلتا ہے۔اور کردار کی مکمل ذہنی اور جسمانی تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ ”مسعود “ ”چچا“ کے سامنے ہمیشہ دبادبا اور سہما ہوا رہتا ہے۔ اس کی یہ حالت چچا اور اس کے درمیان ہونے والے مکالمے سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے:
” کیوں ؟ کھڑا کیوں ہے؟“
”کچھ نہیں جی “ مسعود کا گلا خشک ہو گیا
”کچھ تو ہے“
”نہیں جی کچھ نہیں“ اس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا
”تو پھر فوجیں کیوں کھڑی ہیں“ (٢)
اشفاق احمد کے افسانوں کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ مکالمہ نگاری کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں مکالموں کے ذریعے حالات و واقعات کی ایسی پیش رفت دکھاتے ہیں کہ غیرمحسوس طریقے سے افسانہ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ اُن کی یہ خصوصیت تمام افسانوں میںغالب نظر آتی ہے۔ افسانہ ”فہیم “ میں ”سلیم “ اور ”نعیم“ کے مکالموں سے ان کی ذہنی سطح اور عمروں کا بخوبی پتہ چلتا ہے:
”ہٹاو یار اپنی ٹانگ“ سلیم نے جھلا کر کہا ”پھر میرے اوپر ڈال دی “!
”کہاں لے جائوں اسے “نعیم نے تنگ آکر پوچھا ”جگہ بھی تو ہو“
”جگہ تو کافی ہے ادھر “ سلیم اٹھ کر بیٹھ گیا اور چارپائی کے اس طرف ہاتھ پھیرنے لگا۔“ (٣)
اشفاق احمد کے ہاں عمدہ مکالمہ ہے جو آگے چل کر شہرہ آفاق ڈارموں کا سبب بنا۔ اور انھیں ڈرامہ نگاری میں اولیت حاصل ہوگئی۔ افسانہ ”شب خون “ میں اشفاق احمدنے کرداروں کی حیثیت اور حالت کے مطابق مکالمے کہلوائے ہیں مثال کے طور پر”شقو“ اور دوسرے مریضوں کے ہاں چونکہ موت ایک عام سا واقعہ ہے اس لیے موت کے بارے میں اُن کی گفتگو بھی بالکل معمو ل کے مطابق فطری ہے:
”یہ تو مرگیا
کون ؟شقو نے پوچھا
یہ ٹونٹی تھری
”ابھی نہیں“ ٹونٹی تھری نے آنکھیں کھول کر کہا“ (١)
اسی افسانے کا ایک اور کردار ”اصغر کامریڈ“ ہے جس کے مکالموں میں خدا کے وجود کے متعلق طنزیہ لہجے کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ خدا کے وجود پر اس کا اعتبار اٹھ گیاہے اس لیے وہ بلا طنز میں ڈوبے ہوئے جملوں میں کہتا ہے کہ:
” ٹی بی کا علاج تو خدا کے پاس بھی نہیں“
اگر مکالموں کے ادا کرنے میں فطری رنگ ہوگا تو بڑا فائدہ کہانی کے فطرت کے قریب تر ہونے کا ہے۔ اس کے علاوہ کرداروں کے موقع اور حالات کے حوالے سے مکالموں میں افسانے پر بہت اثر پڑتا ہے۔ افسانہ ”عجیب بادشاہ“ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں اشفاق احمد نے”زمان“ کے منہ سے جو مکالمے کہلوائے ہیں اس سے اس کی عمر نفسیات اور ضدی انسان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
”میں نے کہا ”الفنسٹن سٹریٹ میں بہت سی دکانیںکھلی ہوئی ہوں گی ابھی چل کر کیوں نہ لے لیں“
زمان نے کہا”اب کل ہی لوں گا“
”کل کیوں؟“ میں نے پوچھا
”بس یار آج نہیں لوں گا“
”نہیں کیوں ؟“
”نہیں لوں گا یارکیوں کیا ؟“
میں نے کہا اچھا تمہاری مرضی یہ کوئی نئی بات تو نہیں تم ہمیشہ سے ایسے ہی ضدی اور اپنی ہٹ کے پکے رہے ہو۔“ (٢)
اشفاق احمد کے افسانوں میں ایسے افسانے بھی شامل ہیں جس کا ماحول دیہاتی ہے۔ اور اُنہوں نے دیہاتی ماحول کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی ہے۔ دیہاتی ماحول میں زیادہ تر بلکہ اکثر لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی عکاسی اور اُن کی زبانی باتیں کہلوانا بہت مشکل کام ہے۔ اشفاق احمد نے دیہاتی ماحول کے مطابق سارے کرداروں سے فطری مکالمے کہلوائے ہیں۔ انھوں نے کرداروں کی ذہنی سطح اور سادہ لوحی کا خاص خیال رکھا ہے۔دیہاتی لوگوں کی گفتگو سے واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی گائوںکے ان پڑھ اور سادہ لوح انسان باہمی سوال و جواب کر رہے ہوں ۔ اور اُن کی گفتگو سے اُ ن کی معاشی حالت کی بھی عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے یہ اشفاق احمد کا کمال ِ فن ہے ۔مثال کے طور پر ”بابا“ میں دیہاتی ماحول سے تعلق رکھنے والے لوگ کچھ اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔
” چتلی “ کھپریل تلے اپنے نومولود بچے کوچاٹ رہی تھی کمالو نے دیوار سے با لٹی اُٹھا کر کہا
”چاچا جب تک تم یہاں ہو میں ”چتلی “ دوہ لوں ۔ ذرا دیر ہوگئی تو ڈکرانے لگے گی۔ پھر تم ”وحید “بھائی کے غصے سے تو واقف ہو“
”دوہ لے “چاچا نے اطمینان سے کہا“ (١)
اسی طرح ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
” کمالو بولا ”چاچا بات تو شیخ نماری کی سولہ آنے کھری ہے۔ بڑے میاںجی بھی کہا کرتے تھے کہ بھونری والا گھوڑا ہرے کھیت سے گزر جائے تو کال پڑ جاتا ہے۔“ (٢)
”بابا“ کے مکالموں سے کرداروں کی عمر اور کیفیات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ مسعود کے مکالمے پڑھ کر اس کی معصومیت کے ساتھ ساتھ ا س کی ذہانت کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے:
” اچھا بتائو تم کو بابا اچھا لگتا ہے یا ممی؟“
”ممی“
”اور بابا“
”بابا بھی “
اور ”ڈاڈا“
”ڈاڈابھی“
”ممی ڈاڈا کہاں گئے؟“ (١)
لیکن ”بابا “ میں ایلن کے مکالموں کوپڑھ کر فطری پن کا احساس نہیں رہتا اور قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ ایک انگریز عورت ہونے کے باوجود ”ایلن “ کیسے اتنی صاف اور شستہ زبان بول رہی ہے۔ اور یہی غیر فطری اثر اس افسانے کی ایک خامی دکھائی دیتا ہے۔
”بندرا بن کی کنج گلی میں“ میں ”نمدار “ کے مکالمے اس کی قابلیت اور حاضر جوابی کو ظاہر کرتے ہیں:
”آپ اتنے سگریٹ کیوں پتے ہیں ؟“
”میں نے کہا ”اس لیے کہ میرے پاس اتنے سگریٹ ہوتے ہیں اور اس لیے کہ فالتو سگریٹ بنک میں جمع نہیں کرائے جا سکتے ۔“
وہ ذرا مسکرائی اور کہنے لگی۔” سگریٹ نوشی سے پھیپھڑے کالے ہو جاتے ہیںاور ۔۔“
میں نے کہا ”ہوتے ہیں تو ہونے دو۔انھیں کون دیکھنے جائے گا۔ شکر ہے کہ۔۔۔(٢)
اشفاق احمدکے افسانے ”توتا کہانی “ کا بنیادی موضوع محبت ہے اس لیے محبت کے حوالے سے کئی مقامات پر ہمیں ”حامد “ اور ”خجستہ “ کے خوبصورت مکالمے ملتے ہیں۔
”اس نے اپنا ماتھا چھاتی پر ہولے ہولے مارتے ہوئے کہا۔”آپ سے ملنے کی تمنا پہلے ایک چنگاری بن کر سلگتی رہی ۔ اس کے بعد فوراً بھڑک اٹھی اور آگ کے نارنجی شعلوں نے مجھے دن رات جلانا شروع کر دیا۔۔۔ میں آپ کو اسی جہنم میں بھیجنا چاہتی ہوں۔
میں نے کہاں ”تمہاری باتیں تو پہیلیاں ہیں اور میں صرف سیدھی سادھی باتیں سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ تمہارے اس معمہ کو کیونکر حل کرتا!“ (٣)

اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد ان کے لیے مکالمے لکھے ہیں۔ اور انہوں نے سچائی اور کرداروں کے کھرے پن کوملحوظ خاطر رکھ کر اپنے افسانوں کو کامیاب بنایا ہے۔ اور اُن میں قدرتی رنگ قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔الغرض اشفاق احمد نے ”ایک محبت سو افسانے“ میں بہ لحاظ فن ایسی مکالمہ نگاری پیش کی ہے جو فن افسانہ نگاری میںرہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی ۔

No comments:

Post a Comment

You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.