اشفاق احمد

باب سوم1

باب سوم:
”ایک محبت سو افسانے “ کا فنی جائزہ






کسی بھی افسانہ نگار کے فن پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس کے افسانوں کا فنی حوالوں سے خوب تجزیہ کیا جائے اور بخوبی اندازہ لگایا جائے کہ اُس کے افسانے فن افسانہ نگاری کے لوازمات پر کس حد تک پورے اترتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی حوالے سے درجہ کمال تک پہنچا ہوا افسانہ نگار وہی سمجھاجاتا ہے جس کے افسانے فنی لوازمات کو بہ طریق احسن پورے کرتے ہوں۔ بہ لحاظ فن کسی بھی افسانے میں کردار ، پلاٹ ، کہانی ، منظر نگاری ، مکالمہ نگاری ،جزئیات نگاری اور تجسّس وغیرہ ضروری چیزیں ہیں۔ بہترین افسانہ نگار ان سارے لوازمات کو مدنظررکھتے ہوئے افسانہ تشکیل دیتا ہے۔ اگران سارے لوازمات میں سے ایک بھی کسی افسانے میں اپنے موجودگی کا احساس نہ دلائے تو فنی اصولوں کے حوالے سے وہ افسانہ کمزور سمجھا جاتا ہے۔ الغرض ان سارے لوازمات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی افسانہ نگار اپنا مقام و مرتبہ متعین کرتا ہے۔
پریم چند کو اردو کے مختصر افسانے کی تاریخ میں اوّلین مقام حاصل ہے۔ پریم چند نے اردو افسانے میں عام شہری اور دیہاتی لوگوں کی زندگی کے نقشے کھینچے ہیں۔ وہ ہر چیز کو اس کی اصلی حالت اور کیفیت کے بیان کرنے میں حد کمال تک پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں انسانی دکھ کی روداد بھی ہے اور وہ اسے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ پریم چند کے افسانے نے حقیقت پسندی کو رجحان دیا ۔دیہاتی زندگی کی سادہ دلی کی جس عکاسی کی بنیاد پریم چند نے رکھی تھی اس کا نقش ہمیں آگے چل کر علی عباس حسینی ،راجندر سنگھ بیدی،اور اشفاق احمد کے شروع کے افسانوں میں زیادہ گہرا ہو کر ملتا ہے۔
اسی طرح یلدرم کی رومانیت کا رجحان بھی اردو ادب میں جار ی رہا ۔اور اشفاق احمد کے ہاں محبت کا موضوع بھی اسی رجحان کا تسلسل نظر آتا ہے۔ یعنی اُن کے ہاں حقیقت پسندی کی ہلکی سی آنچ کے ساتھ رومانیت کی خوبصورت فضاءبھی ملتی ہے۔
ان ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اشفاق احمد کے افسانوں کا تجزیہ کیاجائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد کے افسانے اُن کے فن کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔اشفاق احمد نے اپنے پہلے ہی افسانے سے اردو ادب میں ایک اونچا اور اہم مقام حاصل کر لیا۔ اشفاق احمد اپنے نظریہ فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
” میں نے اپنے افسانوں میں پلاٹ پر کبھی زور نہیں دیا اورنہ مجھے یہ پسند ہے بلکہ میری تمام تر توجہ کردار پر ہوتی ہے جو معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں اور کردار ہی پلاٹ کو اور کہانی کو مرتب کرتے ہیں۔“
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق احمد کا شمار ارد و کے ذہین ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے وہ کہانیوں کی زبان میں سوچتے ہیں اور زندگی کو افسانے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اس صورت واقعہ کو مختلف کرداروں کے حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پوری زندگی ہمارے سامنے عریاں ہو جاتی ہے۔ وہ اردو ادب کے ایک بڑے افسانہ نگار اور اپنے عہد کے نمائندہ تخلیق کار ہیں۔اشفاق احمد کے فن کی جڑیں زمین میں اتری ہوئی ہیں وہ اپنے افسانے کے لیے حقیقی زندگی کو دیکھتے ہوئے واقعہ کو برتے ہوئے مشاہدے کو موضوع بناتے ہیں۔ اور زندگی کی ایک تاش کو اٹھا کر ہماری ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں محبت کا حسی تصور بے حد لطیف اور کثیر الاضلاع ہے۔ ان کے سارے افسانے بظاہر محبت کے مرکزی نقطے پر گردش کرتے ہیں تاہم اُن کے موضوعات متنوع ہیں اور وہ محبت کی قندیل سے زندگی کے بے شمار گوشوں کو منور کرتے چلے جاتے ہیں۔
اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کی یہ صورت ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں۔ لیکن اُن کی حقیقت نگاری کھری ، بے ڈھنگی، اذیت ناک ، فاحش اور انتہا پسند نہیں ہوتی ۔وہ جس ماحول یا کردار سے متاثر ہو کر افسانہ لکھتے تھے ۔ اُسے حد درجہ سبک ، نرم ، میٹھے ،سادہ اور دھیمے لہجے میں قاری کے دل و دماغ میں اتار دینے کی کوشش کرتےہیں ۔بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری :
” وہ اپنے مقصد یا فلسفہ حیات کو افسانے کی سطح پر تیرانے کے بجائے اسے معنی کی گہری تہوں میں اتار کر کہانی سناتے ہیں۔ کہانی میں ان کی نظرماحول سے زیادہ کردار پر ہوتی ہے لیکن کچھ ا س انداز خاص سے کہ افسانے کا ماحول خود بخود قاری پرروشن ہو جاتا ہے۔“ (٢)
اشفاق احمد نے بطور افسانہ نگار اور خاص طور پر ایک حقیقت پسند افسانہ نگار کے زندگی کے اوریجنل ماحول اور زندگی کے سچے اور حقیقی کرداروں کو ہمیشہ قریب سے دیکھنے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کی اس کے کردارزندگی کے حقیقی ماحول سے لیے گئے کردار ہیں۔ ان کرداروں کی تعمیر میں جو خام مواداستعمال ہوا ہے وہ اس نے حقیقی زندگی ہی سے اخذ کیے ہیں۔ اشفاق احمد کے دو افسانوی مجموعوں کے افسانے اس کے فن کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ یعنی ”اجلے پھول“اور ”ایک محبت سوافسانے “ ان مجموعوں کے افسانوں میں وہ ہمیں اپنے فن کی انتہائی بلندیوں پر نظر آتا ہے۔آگے چل کر’ایک محبت سوافسانے “ کی روشنی میں اشفاق احمد کے فن کا تجزیہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔
اشفاق احمد کا فن ”ایک محبت سوافسانے “ کی روشنی میں:۔
اشفاق احمد کے فن کا تجزیہ ”ایک محبت سو افسانے “ کی روشنی میں کیاجائے تو یہ بات واضح طورپر سامنے آتی ہے کہ اپنے اس مجموعے میں اشفاق احمد نے فن کے حوالے سے ہمارے سامنے بہترین نمونے پیش کیے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل تمام افسانے فنی حوالوں سے مزین ہیں ۔ اشفاق احمد نے تما م تر فنی تقاضوں کو عمدہ طریقے سے نبھانے کی کوشش کی ہے اور کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی افسانہ فنی حوالے سے کمزوری کا شکار ہے۔
”ایک محبت سو افسانے “ میں کل تیرہ (٣١ ) افسانے شامل ہیں ۔اس طرح ان افسانوں کو مدنظر رکھ کر ان کی کردار نگاری ، منظر نگاری ، پلاٹ ، مکالمہ اور تجسّس و جستجو جیسے ضروری عناصر پر باری باری بات کی جائے گی ۔

کردار نگاری :۔

کردار نگاری افسانے کا ایک اہم جزو ہے۔اس کے اپنے کچھ اصول اور لوازمات ہیںیعنی کرداروں کو حقیقی انسانوں سے ملتا جلتا ہوا ہونا چاہیے۔ اگر کردار مصنوعی اور غیر فطری ہوںگے تو قاری ان میں دلچسپی نہیں لے گا ۔ اس طرح افسانہ بے تاثیر ہو جائے گا۔ کرداروں کے افعال ان کے کرداروں میں تغیر کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ بات کرداروں کے نفسیاتی تجزےے سے حاصل ہوتی ہے۔ افسانوی کرداروں میں یکسانیت نہیں ہونی چاہیے وہ محض اچھائی کا نمونہ ہوں نہ محض برائی کا مجسمہ ، بلکہ ایک جیتے جاگتے انسان کی طرح ان میں نیکیاں بھی ہوں اور لغرزشیں بھی۔ مرد اور خاتون کرداروں میں ان کی نوعی خوبیاں اور خامیاں موجود ہونی چاہئیں۔ کردار نگاری میں کامل الفن ہونے کے لیے افسانہ نگار کو انسانی نفسیات سے واقفیت ہونی چاہیے اور اس کا مشاہدہ ہمہ گیر اور گہر ا ہونا چاہیے۔
افسانہ میں سب سے اہم کردار ہیرو یا ہیروئن کا ہوتا ہے۔ ہیرو یاہیروئن کی کامیاب کردار نگاری پر افسانہ کی بقاءکا دراومدار ہوتا ہے۔ دراصل سارا افسانہ انہیں کے گرد گھومتا ہے۔ اس کو عین زندگی کے مطابق ہونا چاہیے ۔ اگر کسی کردار کو مثالی کردار دکھانا ہے تو اس میں مافوق الفطرت خوبیاں پیدا نہ کی جائیں کیونکہ مثالی کردار بھی بہرحال انسان ہوتے ہیں۔ ضمنی کردارجو واقعات کی تکمیل میں مدد دیتے ہیں۔ ان کرداروں کو ہیرو ہیروئن کے تابع ہونا چاہیے۔ اگر انہیں کہانی میں زیادہ اہمیت دی گئی تو ہیرواور ہیروئن کے کردار دب جائیں گے اور افسانہ کی دلچسپی میں فرق آئے گا۔
اسی تنا ظر میں دیکھا جائے تواشفاق احمد نے اپنے افسانوی مجموعے ”ایک محبت سو افسانے “ میں فن ِ کردار نگاری کے سبھی اصولوںاور لوازمات کو خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ نبھاتے ہوئے کرداروں کی عادات اور خصائل کو انتہائی باریک بینی سے پیش کیا ہے اور ان کا بہترین نفسیاتی تجزیہ کر دکھایا ہے۔
مجموعے کا پہلا افسانہ ”توبہ “ خوبصورت رومانی احساسات سے بھرپور افسانہ ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ”اعجاز“ ایک لاابالی اور عاشقانہ مزاج رکھنے والا نوجوان ہے۔ وہ زندگی کے میدان میں ایک اچھا جواری ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے سگریٹ کے معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے ہمیشہ جیت جاتا ہے ۔ اس کے ماں باپ ہر قسم کی کوشش کے باوجود اس کے سامنے ہمیشہ ہار جاتے ہیں ۔ اور”حامد“ اپنی ضد پر قائم رہتا ہے۔ لیکن یہ کامیاب جواری آخر کار محبت کے معاملے میں ہا ر جاتا ہے اورجب ”لیکھا “ کوسگریٹ پیتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کا دل سگریٹ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اچاٹ ہو جاتا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ اس کردار کی اپنی سماجی مجبوریاں بھی ہیں ۔وہ ایک ہندو لڑکی سے محبت کرتا ہے اس کی کیفیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے محبو ب کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے درمیان مذہب کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔
افسانے کے دوسرے مرکزی کردار ”لیکھا “ کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی بے نیازی پائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُسے اردگرد کی کوئی پروا نہیں حالانکہ اُسے اعجاز کی محبت کا احساس ہے لیکن پھر بھی وہ مکمل طور پر سامنے آنے سے قاصر رہتی ہے۔ اُس کا آخرمیںسگریٹ پینا قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ اس کی بے نیازی کی کوئی ادا ہے یا یہ سب اُس کے اندر محبت کے حوالے سے ہونی والی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ان مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ افسانے میں اعجاز کی ”ماں “ ، ”والد“ ”انسپکٹر“ ،شادی میں کھیلنے والے بچے اور شریک مہمانوں جیسے ثانوی کرداروںبھی شامل ہیں۔
”ایک محبت سو افسانے “ میں شامل افسانے”فہیم “ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد نے اس افسانے میں درمیانے درجے کے ایک چھوٹے سے گھر کی کہانی پیش کی ہے۔ کردار نگاری کے حوالے سے دیکھاجائے تو اشفاق احمد نے اس افسانے میں کرداروں کا خوب نفسیاتی تجزیہ کر دکھایا ہے۔ اور فن کردار نگاری کے تمام اصولوں کو بڑی کامیابی سے برتا ہے۔ کرداروں کی حرکات اور مکالموں سے ان کی حیثیت اور طبقے کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ افسانے کے کردار وں میں ”فہیم “ ، ”نانا “ ، ” نانی “ ، ”پروین “ ، ” نسرین“ ،”سلیم “ ،”نعیم “ جیسے کردار شامل ہیں اس کے علاوہ دوسرے ثانوی کردار بھی اس افسانے کو آگے بڑھانے میں معاون اور مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔
”فہیم “ اس افسانے کا اہم اور مرکزی کردار ہے افسانے کا عنوان بھی ”فہیم “ ہے اشفاق احمد نے کردار کی حرکات اور مکالموں کو اس طرح پیش کیا ہے جس سے اس کی کم عمر کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ چھوٹے بچے متجسس ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور اُن کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات اُٹھتے ہیں جن کو بڑے اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اس لیے جب ”فہیم “ نانی اماں کی کہانی میں کوئی سوال اُٹھاتا ہے تو اسے بری طرح سے جھڑک دیا جاتا ہے۔مثلاً
”بابا تمہیں سمجھ تو ہے نہیں خواہ مخواہ باتیں سن رہے ہو ۔“ (١)
”سو جابے تو ابھی تک سویا نہیں “ (٢)
اس کے علاوہ ”فہیم “ ایک حساس بچہ ہے جو کہ نانی اماں کی کہانی کو غور سے سن رہا ہے ۔ باقی تمام کردار نانی اماں کی کہانی کو محض ایک قصہ سمجھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن فہیم اس کہانی کو بڑے قریب سے سن رہا ہے اور محسوس کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُس نے کہانی کو اپنے اوپر طاری کر لیا ہے ۔ اس لیے جب ”نانا“ کی موت واقع ہوتی ہے تو سب لوگ سو رہے ہوتے ہیں جبکہ ”فہیم “ نہ صرف جاگ رہا ہوتا ہے بلکہ باقاعدہ ہچکیوں کی صورت میں رو رہا ہوتا ہے۔
اشفاق احمد نے اس افسانے میں ”نانی “ کے کردار کے ساتھ بھی خوف انصاف کیا ہے اور اس کے تمام خدوخال خوبصورتی سے ابھارے ہیں ۔ نانی ایک ایسی بزرگ خاتون ہے جو اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ گزار چکی ہے۔ لیکن عام طور پر جس طرح دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو ماضی کے گزرے ہوئے واقعات یاد کرنے میں بڑا لطف آتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی کے واقعات اپنے بچوں کو سناتی ہے۔ نانی کی اکثر یادیں تلخ اور ناخوشگوار ہیں لیکن ان کو بیان کرنے میں اسے اچھا محسوس ہوتا ہے۔
”نانا “ جیسے کردار اشفاق احمد کے افسانوں میں اکثر نظرآتے ہیں۔ یہ اُن کے ابتدائی دور کا افسانہ ہے لیکن آگے چل کر اشفاق احمد کے ہاں جو تصوفانہ اور داخلی سطح پر محبت کے جو رویے پروان چڑھے یہ کردار اس کی پہلی کڑی نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کو تمام کائنات سے محبت ہے اور وہ سب کو محبت کا درس دیتا ہوا نظرآتا ہے۔ اس شخص کے تمام روےے روحانی ہیں اس کے ہاں مادیت کا کوئی اثر نظر نہیں آتا وہ ذہنی سکون کے لیے سب کچھ چھوڑ کر پیرکی درگاہ پر جانے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ غرور سے ہمیشہ دور بھاگتا ہے ۔ بوٹ صرف اس وجہ سے نہیں پہنتا کہ اس سے غرور اور تکبر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے:
” بوٹ پہن کر آدمی مغرور ہو جاتا ہے اس کی اونچائی اور آواز انسان کے دل میں تکبر پیدا کر دیتی ہے میں اور سارے کام کرنے کو تیار ہوں لیکن بوٹ نہیں پہنوں گا۔“ (٣)
جو کچھ بھی ہاتھ آتا ہے سخاوت سے خرچ کردیتا ہے لیکن پھر بھی اس کے ہاں تنگی اور غربت نہیں آتی اس لیے کہ وہ دل کاامیر ہے مخلوق خدا سے اس کی محبت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ ایک کتے کی موت بھی برداشت نہیں کرپاتا اور ساری رات اس کے غم میں ٹہلنے کے بعد بیمار ہو کر اپنی جان دے دیتا ہے۔
اس کے علاوہ ”پروین “ ، ”سلیم “ ،”نعیم “ کی حرکتوں سے نہ صرف ان کی عمروں بلکہ گھریلو حالت کا بھی آسانی سے پتہ چلتا ہے ۔ یہ سب بہن بھائی ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑمیں مصروف رہتے ہیں ۔ دونوں بھائیوں کی کھینچا تانی اور مکالموں کو پڑھ کر قاری کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ سی کھل جاتی ہے۔ تینوں کرداروں کو اپنے بڑے ہونے کا احساس تفاخر بھی ہے اس لیے وہ اپنے چھوٹے بھائی ”فہیم “ پردھونس جماتے رہتے ہیں۔
مجموعے میں شامل افسانہ ”رات بیت رہی ہے “ خط کے انداز میں لکھا گیا ایک منفر د افسانہ ہے ۔ جہاں تک کردار نگاری کا تعلق ہے تو مصنف نے بہترین اور خوبصورت کردار تراشنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ افسانے کے مرکزی کرداروںمیں خط لکھنے والا ہواباز جس نے اپنے لیے واحد متکلم ”میں “ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی محبوبہ ”رینا“ اس کا امریکی پائلٹ دوست ”پیٹر “ اور پیٹر کی محبوبہ ” مارگریٹ “ ہواباز کے طیارے کا نشانچی ”مارلو“ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ چند دیگر ضمنی کردار کہانی کو اختتام تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
افسانے کا ہیرو ایک ہندوستانی ہواباز ہے۔ جسے کل اپنے ایک خطرناک مشن پر روانہ ہونا ہے۔ اس طرح افسانہ نگار نے اس کی مکمل ذہنی اور نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے۔ ”پیٹر “ کی لاش کو دیکھ کر جیسے اُسے یقین ہو چلا ہے کہ وہ پھر کبھی جہاز کے عرشے پر واپس نہیں آسکے گا اور عموما ً ایسی حالت میں دیکھا گیا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہستی ضرور یاد آتی ہے۔ اور یوں ایسی حالت میں اُس ہستی سے ملنے کی آرزو انسان کو بے چین کر دیتی ہے۔ اس طرح کہانی کا ہیرو ہواباز اپنی جان سے پیاری محبوبہ ” رینا“ کو خط لکھنے پرمجبور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے جذبات کا یادوں اور باتوں کے ذریعے تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔
کردار کے ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ جیسے اُسے اپنی محبوبہ ”رینا“ سے حقیقی روحانی محبت ہے ۔ اسی لیے تو اُس نے اپنی خواہشات کی گھٹڑی اپنی محبوبہ کے قدموں میں لا کر رکھ دی ہے۔اور یوں اس کی رضا اور مرضی مکمل طور پر ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایف ۔ اے میں داخلہ ہویا خدا کے وجود کا ماننا ،صرف اور صرف ”رینا“ سے مشروط ہے۔” رینا“ جو کچھ چاہتی ہے وہ ویسا ہی کرتا ہے۔ آخر میں چونکہ وہ اپنی زندگی اور موت کے متعلق غیر یقینی کی کیفیت سے گزر رہا ہے اس لیے اُس کی باتوں میں اُس کی ذہنی کشمکش کی کیفیت صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔
”پیٹر “ ایک امریکی ہواباز ہے ۔ مصنف نے اس کی اجتماعی قومی خصوصیت یعنی جذباتیت کا شروع ہی سے ذکر کیا ہے۔ اسی لیے وہ دوستی کرنے میں جلدی پہل کرتا ہے۔ ”پیٹر “ چونکہ ”مارگریٹ سے شدید محبت کرتا ہے اس لیے اس کے کہنے پر وہ فوج میں شمولیت اختیار کر لیتاہے۔ عام نوجوان عاشقوں کی طرح ”پیٹر “ بھی اپنی محبوبہ کے متعلق باتیں کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اور ”مارگریٹ “ کے ذکر سے اس کا جی نہیں بھرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہواباز اور ”پیٹر “ کی وجہ دوستی صرف اور صرف ”مارگریٹ“ ہے۔ ”مارگیریٹ“ سے اس کی شدید محبت کااندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ موت سے پہلے اپنی آخری سانسوں میں وہ اُس کی تصویردیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس طرح ”مارگریٹ“ کی تصویر دیکھنے کے بعد اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔
افسانے کی ہیروئین ”رینا “ ایک ایسی لڑکی ہے جسے اپنے حسن اور اہمیت کا احساس ہے۔ اسی لیے وہ ہیرو ہواباز سے جو کچھ کہتی ہے وہ اُسے فوراً پورا کردیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہواباز صرف ”رینا “ ہی کی بدولت زندگی گزار رہا ہے۔ ”رینا “میں عورت کا وہی فطری جذبہ موجود ہے جس کی وجہ سے اُس کے اندر چاہے جانے کی خواہش ابھر تی ہے۔ اُس کے پاس اپنے محبوب کو لجھانے کی سب ادائیں موجود ہیں۔اس لیے کھائی کی تعمیر کے باوجود وہ اُسے اپنے مخصوص انداز میں پار کرتی ہے۔ کیونکہ اُسے پتہ ہے کہ اُس کا چاہنے والا اُسے دیکھ رہا ہے ۔ اور جب ہیرو خدا کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ ایک خوبصورت انداز میں اس کو خدا کے وجود کا یقین دلا دیتی ہے:
” اچھا تو جاکر کھڑکی بند کر لو ، سمجھ لو آ ج سے وہ کھائی پر ہو چکی ہے۔“ (١)
”مارلو“ ہیرو ہواباز کے جہاز کا توپچی ہے۔ یہ ایک ایسا نشانہ باز ہے جس کا نشانہ کبھی نہیں چوکتا وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزار نے کا قائل ہے۔ اُسے اپنے خدا پر مکمل یقین ہے اس لیے مشن پر روانگی سے پہلے وہ بے فکر دکھائی دیتا ہے اور اپنی پرانی محبوبائوں کے متعلق سوچ سوچ کر خوش ہوتا ہے ۔
افسانہ ”تلاش “ بنیادی طور پر ایک جانور اور انسان کی محبت اور انسیت کی کہانی ہے ۔ افسانے کے کرداروں میں مرکزی حیثیت ایک چھوٹے بچے کو حاصل ہے جس کا نام ”احسان “ ہے جسے اپنے کتے سے بے حد پیار ہے اور یہ پیار جنون میں بدل گیا ہے۔ اس لیے وہ دوسروں کے بارے میں بھی ”جیکی “کے حوالے سے سوچتا رہتا ہے۔ جس کسی کو ”جیکی “ سے پیار ہوتا ہے وہ اُسے پسند کرتا ہے اور جو کوئی جیکی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا احسان بھی اس کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتا ۔ ایک طرح سے ”جیکی “ اس کی ساری کائنات ہے ۔ اس لیے ”احسان “اپنی ماں کی ہر قسم کی گالی گلوچ سہتا ہے لیکن پھر بھی وہ ”جیکی “ کو اپنے سے دور نہیں ہونے دیتا ۔
”امی باہر نکلیں تو گویا قیامت آگئی ۔۔۔۔
وہ منہ بھر کے گالیاں دیں کہ سب کے سب اپنی جگہ بت بن گئے”کہاں گیا احسان کا بچہ؟“ انھوں نے کڑک کر پوچھا ”منہ جھلس دوں تیرا، پاجی ، بڑی سوغات اٹھا لایا تھا ۔“(٢)
”جیکی “میں ہی” احسان“ کی جان ہے اس لیے ”جیکی“ کے گم ہونے کے بعد ”احسان“ کو ایسا لگتا ہے جیسے اُس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے ۔ شدید بے چینی اور دیوانگی کی حالت میں وہ اُسے تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکل جاتا ہے۔ وہ ”جیکی “کے لیے وظیفہ کرتا ہے ۔ پیسے چڑھاتا ہے لیکن ”جیکی “ نہیں ملتا آخر کار ذہنی انتشار اور دیوانگی کی حالت میں ”احسان “ بھی گھر سے بھاگ جاتا ہے۔ اس طرح” احسان“ مخلوق خدا سے جنونی محبت کی بہترین مثال ہے۔ جسے اشفاق احمد نے ایسے سلیقے سے تراشا ہے کہ اپنی حرکتوں اور مکالموں سے اس کی عمر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔
”جیکی “ کا کردار بھی انتہائی اہم ہے ۔ ”جیکی “ ایک ایسا پلا ہے جسے ”اماں“ گڈریوں کا کتا تصور کرتی ہے لیکن احسا ن اس کی خصوصیات بتاتے ہوئے اسے ایک اعلیٰ و ارفع نسل کا کتا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ احسان کے خیال میں اس کے پائوں کے ٠٢ ناخن ہی کتے کی بہترین نسل ہونے کی دلیل ہیں۔”جیکی“ کو بھی اپنے مالک سے بہت زیادہ محبت ہے لیکن اپنی فطرت کی وجہ سے اماں کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے اور آخر کار اپنی عادتوں کی وجہ سے گھر سے بھگا دیا جاتا ہے۔
افسانے کے کرداروں میں ”اماں“ کے کردار کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ جو کہ ایک طرف تو نہایت ہی سخت مزاج رکھتی ہے لیکن دوسری طرف اس کے وجود میں ایک ماں کا نرم دل بھی دھڑکتا رہتا ہے ۔ اس لیے جب ”جیکی “لاپتہ ہو تا ہے تو وہ بھی بے حد پریشان ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایک ماں ہے اور اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر پاتی اور ”احسان“ کے لاپتہ ہونے کے بعد اس حالت بالکل ویسے ہو جاتی ہے جیسے” جیکی“ کے گم ہونے پر احسان کی ہوئی تھی ۔
علاوہ ازیں اشفاق احمد نے ”خان صاحب“ کے کردار میں پٹھانوں کی خصوصیات اورعادات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس کردار میں بہادری اور روکھا پن صاف نظرآتا ہے” جیکی“کو پاکستان لانے کے لیے وہ ”کیپٹن “ کے سامنے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔
” خان نے کیپٹن حق نواز سے ہاتھ باندھ کرکہا یہ اس چھوٹے سے پلے کے لیے جان دے دے گامگر اسے اپنے ساتھ ضرور لے جائے گا۔“ (١)
اور جذباتی اتنا ہے کہ ”اماں“ جب ”جیکی “ کی وجہ سے اُسے ڈانٹتی ہے تو وہ جیکی کو اٹھا کر ہوتی مارکیٹ میں پھینک آتا ہے۔
”توقیر بھائی “کا کردار ایک نرم دل انسان کا کردا رہے۔ جسے ”جیکی“ سے کوئی سروکار نہیں لیکن اُس سے” احسان “کی بے چینی دیکھی نہیں جاتی اوروہ بھی ”جیکی“ کی تلاش میں مگن رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کیپٹن ”حق نواز “ ، ”آپا“ جیسے کردار اس کہانی کا اہم جز ہیں جوکہ کہانی کو آگے بڑھانے میں معاون اورمددگار ثابت ہوتے ہیں ۔
”ایک محبت سو افسانے“ میں موجود افسانہ ”سنگ دل “ میں اشفاق احمد نے تمام کرداروں کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر کہانی کو تشکیل دیا ہے۔ اور تمام کرداروں کا خوبصورت نفسیاتی تجزیہ بھی کردکھایا ہے۔ افسانے کا ہیرو” انسپکٹر “ جو کہ واحد متکلم ”میں “ کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ ایک ایسا کردار ہے جو محبت کرتے ہوئے بھی اظہار نہیں کر پاتا ۔ اُسے ”پمی “ سے شدید محبت ہے ۔ لیکن اُن دونوں کے درمیان مذہب کی بہت بڑی خلیج حائل ہے ۔ اس لیے وہ ذہنی طور پر شدید کشمکش کا شکار ہے ۔ بچپن سے لے کر جوانی تک اس نے صرف ”پمی “ کو چاہا ہے اور جدا رہنے کے باجود اُسے وہ بھول نہیں سکا۔ مگر مسلمان ہونے باوجود وہ ایک بے حس انسان بھی ہے اس لیے کہ ”حسنا“ کے باپ کے خط کے جواب میں وہ جس لاپرواہی کا مظاہر ہ کرتا ہے ۔ وہ انسان کی بے حسی انتہا ہے ۔ لیکن ”پمی “ کو دیکھ کر اس کے اندر کا انسان جاگ اٹھتا ہے۔ اور وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے نہ صرف ”پمی “ کے سامنے شرمندگی محسوس کرتا ہے بلکہ ”پمی “سے معافی بھی مانگ لیتا ہے۔
افسانے کی ہیروئین ”پمی “ کو اشفاق احمد نے بھرپور اور مکمل شکل میں پیش کیاہے۔ اس کردار کے اندر محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظرآتا ہے۔ لیکن حالات نے اسے ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ محبت سامنے ہونے کے باوجود اُسے حاصل نہیں کر سکتی ۔ اسی لیے وہ ذہنی کشمکش کا شکار ہے ۔ اُس کے ہونٹوں پر کھلم کھلا اظہار تو نظر نہیں آتا لیکن اشعار کے ذریعے اُس کے ارادے اور محبت کا بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ تشریح پوچھنے کے بہانے وہ اکثر اپنے محبوب سے محبت کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جس میں محبت کے حوالے سے اُس کی مجبوریوں کو صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

جو بات دل میں رہ گئی نشتر بنی حفیظ
جو لب پہ آگئی رسن و دار ہو گئی

ساتھ ہی ساتھ یہ کردار ایک انسان دوست اور نرم دل کردار ہے اس لیے جب ”انسپکٹر “ ”حسنا “کے والد کے خط پر جھوٹی عبارت لکھتا ہے تو اُسے انتہائی دکھ ہوتا ہے اور وہ اپنے محبوب کو سنگدل کہہ کر چلی جاتی ہے۔ لیکن بعد میں وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ”حسنا“ کو آزاد کراتی ہے۔ اور اُسے ”انسپکٹر “ کے حوالے کرکے انسانیت کے لیے اپنی محبت کی قربانی پیش کرتی ہے۔
”امر “ ”پمی “ کا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس کے مکالموں سے اس کی عمر کا بخوبی پتہ چلتا ہے پمی دیدی سے اُسے اس لیے نفرت ہے کہ وہ اس پر پڑھائی کے معاملے میں سختی سے پیش آتی ہے۔ بچے چونکہ اپنے اردگرد کا جلدی یا فوراً اثر لیتے ہیں اس لیے ماحول کی بدولت ”امر ‘ ‘ بھی مسلمانوں سے سخت خوفزدہ ہے۔ اور اُن سے نفرت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ”خدا بخش“ ،”ابا جی “ ، ”پتا جی “ اغوا شدہ لڑکیاں اور ”حسنا“ اس افسانے کے ثانوی کردار ہیں ۔ اغوا شدہ لڑکیوں کے برتائو اور حرکات و سکنات سے اُن کی ذہنی حالت کا پتہ چلتاہے۔ فسادات نے اُن کا سب کچھ چھین کر اُن کو اکیلا اور بے یارو مدگار چھوڑ دیا ہے۔
اشفاق احمد کا افسانہ ”مسکن “ ایک مکمل بیانیہ افسانہ ہے۔ جس میں کہانی کا مرکزی کردار خود کلامی کے انداز میں کہانی کی ہیروئین سے مخاطب ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار جس کے لیے مصنف نے واحد متکلم ”میں “ کا صیغہ استعمال کیا ہے ، اپنی یادوں کااسیر ہے ۔پوری کہانی کا پلاٹ اسی ہیرو کے ذہن کی سٹیج پر ترتیب پاتا ہے۔ زیر بحث افسانے میں مصنف دو کرداروں کے ہوتے ہوئے بھی ایک مکمل کہانی کی تصویر پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کہانی کا ہیرو ایک متوسط گھرانے کا نوجوان ہے۔ جو کہ ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا ہے۔ غم روزگار کی وجہ سے وہ اپنی محبوبہ کو تقریباً فراموش کر چکا تھا لیکن اس کی اچانک یاد نے اُسے بے چین کر دیا ہے۔ اس طرح اشفاق احمد کے دوسرے کرداروں کی طرح یہ کردار بھی جدائی کے المیے سے دوچار ہے۔ اچانک جب اسے اپنی محبوبہ کی خبر ملتی ہے تو اُس سے ملنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے ۔لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتا اس لیے کہ اس کی محبت کسی اور کی ہو چکی ہے۔ اس لیے اُس کی باتوں میں زیاں اور پچھتاوے کا احساس جابجا موجود ہے۔ یوںوہ ذہنی کشمکش کا شکار نظر آتا ہے ۔ ایک طرف تو اسے اپنی محبوبہ سے اگر کچھ شکایتیں ہیں تو دوسری طرف اس نے حقیقت سے بھی سمجھوتہ کر لیا ہے اور اس لیے اُسے اپنی محبوبہ کی مجبوریوں کا بھی احساس ہے ۔
افسانے کی ہیروئن ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہے جس کو اپنے محبوب سے شدیدمحبت ہے لیکن معاشرے کی پابندیوں اور مشرق کی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے وہ محبوب سے ملنے سے قاصر ہے۔ اسی لیے سالگرہ پر وہ چپکے سے ہیرو کے کالر پر پھول اور اپنے نام کا پہلا لفظ لکھ کر لوٹ آتی ہے۔ وہ بات تو نہیں کر پاتی لیکن سوتے میں ہیرو کی گردن پر خوب صورتی سے ہاتھ رکھ جاتی ہے۔ جس کا احساس ہیرو پہروں تک محسوس کرتا ہے۔ کہانی کے آخر میںہیروئن طویل جدائی اور اپنے حالات سے مجبور ہو کر کسی اورسے شادی کر لیتی ہے۔ اور ہیرو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدائی کے المیے سے دوچار کر دیتی ہے۔

No comments:

Post a Comment

You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.