باب دوم
باب دوم:
اردو افسانہ بیسویں صدی میں
پس منظر :۔
افسانہ کیا ہے ۔ شاید آج تک کوئی بھی نقاداور افسانہ نگار اس کی جامع تعریف نہ کر سکا ۔ اگر چہ مختلف نقاد اور افسانہ نگار اپنے انداز میں برابر اس صنف کی تعریف کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں مغربی نقاد اور مصنفین بھی شامل ہیں اور مشرقی بھی۔ لیکن اس سے پہلے ہم افسانے کے پس منظر سے آگاہی حاصل کر لیں کہ وہ کونسے حالات تھے جس نے افسانے کو جنم دیا۔
”یورپ کی صنعتی ترقی نے انسان کی مصروفیت میں مسلسل اضافہ کیا ۔ اس کا اثر جہاں زندگی کی دوسرے شعبوں میں پڑا ، وہاں ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مصروفیت میں گھر ے ہوئے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی چیز پڑھے جو کہ نہایت مختصر وقت میں اس کے ذوق کی تسکین و تشفی اور جذباتی ، نفسیاتی اور تفریحی تقاضوں کو پورا کر سکے ۔ مختصر افسانہ اسی ضرورت کی پیداوار ہے۔“ (١)
افسانہ کے لیے انگریزی میں (Short Story)اور (Fiction)کے الفاظ استعمال کیے جا تے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد مختصر وقت میں پڑھی جانے والی کہانی ہے۔ مختلف نقادوں اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر یہ اتنی جامع نہیں ہیں اس سلسلے میں مغربی ادیب ایڈ گر ایلمن افسانے کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
” یہ ایک ایسی نثر ی داستا ن ہے جس کے پڑھنے میں ہمیں آدھے گھنٹے سے دو گھنٹے کا وقت لگے۔“ (٢)
اسی طرح معروف مشرقی نقاد سید وقار عظیم مختصر افسانے کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ ان کی یہ تعریف مشرقی نقادوں میں اہمیت کی حامل ہے وہ کہتے ہیں۔
” مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر داستان کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص کردار ، ایک خاص واقعہ ، ایک تجربے یاتاثر کی وضاحت کی گئی ہو نیز اس کے پلاٹ کی تفصیل اس قدر منظم طریقے سے بیان کی گئی ہو کہ اس سے تاثر کی وحدت نمایاں ہو، افسانہ عصری قدروں کی ترجمانی کرتا ہو۔“ (١)
ہماری خاص خاص اصناف نظم و نثر میں مختصر افسانے کی عمر سب سے چھوٹی ہے۔ یعنی اس کا پورا سرمایہ کم و بیش اسی (80) سال کی ادبی سرگرمی اور کاوش کی تخلیق ہے۔ مختصر افسانے نے ایک صنف ادب کی حیثیت بیسویں صدی کے بالکل شروع میںجنم لیا اور اس وقت سے لے کر اب تک اتنی شکلیں بدلیں کہ ادب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ صورت حد درجہ غیر معمولی اور حیرت انگیز بھی ہے لیکن پہلی نظر میں حیرت و استعجاب کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس وقت کم ہونے لگتی ہے جب مطالعہ کرنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ جس معاشرتی اور سیاسی فضامیںمختصر افسانے نے جنم لیا وہ بھی اس درجہ غیر معمولی تھا کہ اس کی آغوش میں جنم لینے اور پرورش پانے والی صنف ادب میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی تو حیرت انگیز ہوتی۔
”1857ءکے انقلاب سے جن دو سیاسی قوتوں ، دوتہذیبوں اور معاشروں کے تصادم کا آغاز ہوا تھا اس نے بیسویں صدی کے شروع تک پہنچتے پہنچتے اجتماعی زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہر فرد حیران و سرگرداں حالات کی کشمکش میں گرفتار کٹھ پتلی کی طرح ادھر ادھر پھرتا تھا اور اُسے فرار کی کوئی راہ نظر نہ آتی تھی۔ حالات کی کشمکش او ر بے یقینی نے سیاسی جماعتوں کو نئے نصب العین بنانے پر مجبور کر دیا۔“ (٢)
10 مئی 1857ءکو میرٹھ میں مقیم فوج (BRD Cavalary)نے بغاوت کردی ۔ اس بغاوت کا فوری سبب یہ تھا کہ 85 فوجیوں کو ایک عدالتی فیصلے کے مطابق دس سال کی قید با مشقت دی گئی تھی۔ ان کاقصور یہ تھا کہ انھوںنے اپنی بندقوں میں ایسے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن کے سروں پر گائے اور سور کی چربی شامل تھی۔ مسلمانوں کے نزدیک سور ایک نجس اور ناپاک جانور ہے جبکہ ہندو گائے کو ماتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کا یہ خیال تھا کہ اس چربی کے استعمال کا مقصد محض ان کے دین کو خراب کرنا ہے ۔
اس کے بعد قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا اور انگریزوں کے خلاف باقاعدہ بغاوت کا آغاز ہوا۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس ملک میں انگریزوں کا اقبال بام عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی غروب ہو جائے گامگرافسو س کہ جنگ میں ہندوستانیوں کوناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو نظر بند کرکے جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اور یوں مسلمانوں کی ہندوستان پر حکومت تاریخ کا حصہ بن گئی۔
1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی صرف ایک سیاسی حادثہ نہ تھا جس کے اثرات انتظام حکومت تک محدود رہتے ۔ جبکہ اس واقعے کی بدولت زندگی کے ہرمیدان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط پر مہر ثبت کر دی گئی ۔
اور یوں معاشرتی ،سیاسی، تعلیمی ، تہذیبی،معاشی حوالے سے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے انھیں حریف کا درجہ دے دیا گیا۔ دوسری طرح انگریز کے ساتھ تعاون مسلمانوں کے خیال میں ایک گناہ کبیرہ تصور کیا جانے لگا اور یوں انگریز کا سارا عتاب مسلمانوں کے سروں پر نازل ہوا ۔
ان حالات میں جب مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تعلیم اور تہذیب کی شدید مخالف کی جارہی تھی ۔سرسید ایک نئی آواز بن کر ابھرے ان کے خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہےے۔ جس مقصد کے لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس نے بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کی اور یہ تعلیمی تحریک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کا سبب بنی ۔
مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی اور تعلیمی اور ادبی ترقی میں سب سے بڑا سبب علی گڑھ تحریک بنی ۔ اس دور میں ان تحریکوںاور افکار نے ہندوستانیوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور آہستہ آہستہ ایسے ادارے اور جماعتیں وجود میں آئیں ۔ جن کا نصب العین سیاسی جدوجہد کے ذریعے انگریز سے آزادی حاصل کرناتھا۔ ابتدائی دور میں ہندو اور مسلمان اکھٹے رہے لیکن کانگرس کے امتیازی سلوک کی بدولت مسلمانوں کو مجبوراً اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا ۔ 1902ءمیں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر بہت بڑی سیاسی جماعت بن گئی اور آخر کار پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
انگریز خود تو پرامن طریقے سے یہاں سے رخصت ہوا لیکن آزادی کے نام پرجو خون ریزی ہوئی اور جوفرقہ وارنہ فسادات ہوئے انھوں نے دونوں مملکتوں ہندوستا ن اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوئے ۔ دوسری طرح نوزائیدہ حکومتوں کے لیے مہاجرین کا سیلا ب جیسے مسائل بہت بڑے چیلنج کی صورت میں سامنے آئے ۔اور پھر بعد میں بننے والے پاکستان معاشرے کے مسائل بے روز گاری ، صنعتی ترقی ، عورتوں کی تعلیم ، زرعی نظام ، کسانوں کی حالت ان سب کا ذکر ہمارے افسانہ نگاروں کے ہاں موجود ہے۔
مختصر یہ کہ افسانہ 1857ءسے 1947ءتک کے انتشار کے زمانے میں پیدا ہوا اور اس انتشار کی وجہ سے زندگی کاصحیح عکاس بن کر سامنے آیا۔ اس اجمال کی تفصیل بڑی واضح لیکن بڑی دلخراش ہے۔
افسانے کا ارتقاء:۔
بیسویں صدی کا سورج ابھرا تو جدید انسان نے اپنے سامنے امکانات کا ایک وسیع سمندر موجزن دیکھا دنیا نئی نئی کروٹیں لے ر ہی تھی ۔ سماجی اور معاشرتی ڈھانچے میں تغیرات اور عالمی سطح پر ہونے والے انقلابات انسانی فکر و نظر پر بھی گہرے اثرات مرتب کررہے تھے۔ ادب جو انسانی زندگی اور کائنات کے ادراک کا حسیاتی ذریعہ ہے ایسی صورتحال میں نئے موضوعات ، ہیئتوں اور اصناف کے رنگوں میں انسانی جذبات کے اظہار کے اسالیب اور ادراک کے قرینے مرتب کرکے زندگی میں حقائق کی تخلیق کر رہا تھا۔
اس ضمن میں مختلف اصنافِ ادب کی نسبت اردو افسانہ اس بنا پر زیادہ اہمیت کا حامل قرار پاتا ہے کہ یہ صنف اس پوری صدی پر محیط نظرآتی ہے۔ کہ پہلی مرتبہ ایک ایسی نثری صنف نے جنم لیا جس کی محفلیں مشاعروں کے ڈھب پر منائی گئیں اور ”شامِ افسانہ“ یا ”محفل مفاسنہ“ جیسی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
اردو زبان میں مختصر افسانہ مغربی ادب کے اثر سے آیا ۔ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں مختصر افسانے سے پہلے ناول، تمثیلی قصے اور طویل افسانے لکھے گئے۔ اور جب وہاں زندگی کی کشمکش بڑھی ۔ انسان کے لئے فرصت اور فراغت کم ہوئی تو مختصر افسانہ نگاری کا رواج ہوا۔ مختصرا فسانہ ایسی افسانوی صنفِ ادب ہے جو زندگی، کردار یا واقعہ کے کسی پہلو کو مکمل طور پر اس طرح پیش کرتی ہے کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ یعنی افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جو آدھ گھنٹے سے لے کر ایک یا دو گھنٹے کے اندر پڑھی جا سکے اور کسی شخصیت کی زندگی کے اہم اور دلچسپ واقعے کو فنی شکل میں پیش کرے۔ جس میں ابتداءہو، درمیان ہو، عروج اور خاتمہ ہو اور قاری پر ایک تاثر پیدا کرے ، افسانہ ایک حقیقت پسندانہ صنفِ ادب ہے۔ انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سماج اور فطرت کی طاقتوں سے انسان کی کشمکش اس کا موضوع ہے۔
اردو میں مغربی انداز کے حقیقت پسندانہ قصے تو انیسویں صدی ہی میں لکھے جانے لگے تھے اور مولانا محمد حسین آزاد نے ”نیرنگ خیال‘ ‘ کی شکل میں تمثیلی رنگ کے قصے لکھے۔ لیکن جدید تحقیق کے مطابق علامہ راشدالخیری کے افسانے ”نصیر اور خدیجہ“ کواردو کا پہلا افسانہ قرار دیا گیا ہے۔ (١)
اردو میں باقاعدہ افسانہ نگاری کی روایت میں بیسویں صدی کے رسالوں ”مخزن“ ”زمانہ“ اور ”ادیب“ کا بڑا ہاتھ رہا ۔ منشی پریم چند ، سلطان حیدر جوش اور سجاد حیدر یلدرم نے اردو میں افسانے کے بہترین نمونے پیش کئے۔
بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری بھی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے یہ سارے ادیب ترکی یا انگریزی افسانہ نگاری سے متاثر تھے ان کے افسانوں میں زبان و بیان کی طاقت اور نفسیاتی اور فلسفیانہ بصیرت خاص اہمیت رکھتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو میں روسی ، فرانسیسی اور انگریزی کے معیاری افسانوں کے ترجمے کثرت سے شائع ہونے لگے اور ان کا اثر اردو افسانوں پر بھی پڑا۔
اردو ادب کے آسمان پر ابتداءہی میں سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند کی شخصیتیں سامنے آئیں لیکن یہ صرف و محض دو شخصیتیں یا دو افراد نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں دو بڑی ادبی تحریکیں تھیں۔ پریم چند نے برصغیر میں افسانوی فضاءقائم کی اور فن میں کچھ ایسی روایات چھوڑیں جو آج تک جاری ہیں ان کا بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کہانی میں کہانی پن بھی قائم رکھا اور اسے خیالی داستانوں اور مافوق الفطرت عناصر سے نکال کر زندگی کے صحیح حقائق سے بھی روشناس کرایا۔ پریم چند کو اپنے مقلدین کی ایک پوری جماعت مل گئی جن میں علی عباس حسینی اور اعظم کریوی سدرشن سرفہرست ہیں۔
پریم چند کے ہم عصر سجاد حیدر یلدرم ایک رومان پسند افسانہ نگار ثابت ہوئے ان کی رومان پسندی نے افسانہ کی دنیا میں انہیں ایک طرز ِ خاص کا موجد بنا دیا جو بالآخر انہیں پر ختم ہو گئی۔
اس لحاظ سے اردو افسانہ نگاری کے پہلے دور میں پریم چند نے اصلاحی رجحان اختیار کیا اور رومانوی رجحان سجاد حیدر یلدرم کی پہچان بنا ۔ ہیئت کے لحاظ سے اس دور میں زیادہ تر بیانیہ افسانے لکھے گئے۔
بیسویں صدی کا چوتھا عشرہ اقتصادی بدحالی ، کسادبازاری اور بیکاری کا دور تھا۔ اس دور میں انگارے کی اشاعت نے اردو افسانے کو ایک نیا موڑ دیا۔
اردو ادب کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری کتاب ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے ”انگارے“ کے مقابل رکھی جا سکے ۔ کتاب شائع ہوتے ہی سارے ملک میں اس کے خلاف طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ تقریباً سارے رسائل و جرائد اور چھوٹے بڑے تما م روزناموں نے اس کی مذمت میں ادارئیے لکھے اور مضامین شائع کئے گئے۔
انگارے کی اشاعت دسمبر 1932ءمیں لکھنو میں ہوئی تھی۔(٢اردو میں افسانہ نگاری کے رجحانات ڈاکٹر فردوس انور قاضی)
کتاب اور اس کے تخلیق کاروں کے خلاف منبروں کو پلیٹ فارم کی طرح استعمال کیا گیا۔ صوبہ جات متحدہ کی اسمبلی میں اس پر سوالات اُٹھائے گئے اور کتاب کی ضبطی کے مطالبے کئے گئے۔ کتابچے اور کھیل شائع کئے گئے جن میں مصنفین کو ہدفِ ملامت بنایا گیا ۔ قانونی چارہ جوئی کرکے سزا دلانے کے سلسلے میں مقدموں کے لئے فنڈ جمع کئے گئے ۔ مصنفین کو سنگسار کرنے اور پھانسی پر لٹکانے تک کی مانگ کی گئی۔
آخر کار حکومت صوبہ جات نے 15 مارچ 1933ءکو تعزیرات ہند کے تحت کتاب کی ضبطی کا حکم دی دیا۔ جس میں کہا گیا کہ اس کتاب کے ذریعے ایک طبقے کے مذہب اور مذہبی عقائد کی توہین کرکے مذہبی جذبات کو مشتعل اور برانگیختہ کیا گیا ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ1936 ءمیں قائم ہونے والی انجمن ِ ترقی پسند مصنفین کی اصل بنیاد ”انگارے“ کی اشاعت کے ساتھ 1932ءمیں رکھی گئی تھی۔
”انگارے“ میں کل دس کہانیاں ہیں سجاد ظہیر کی پانچ
( ١) نیند آتی نہیں
(٢)پھر یہ ہنگامہ
(٣)گرمیوں کی رات
(٤) دلاری
(٥) جنت کی بشارت
احمدعلی کی دو
(١) مہاوٹوں کی رات
(٢)بادل نہیں آتے
رشےد جہاں کی دو
١)دل کی سیر
٢)پردی کے پیچھے
محمود الظفر کی ایک
١)جوانمردی
1936ءکی ترقی پسند تحریک نے افسانے کو تخیل اور تصور کی رنگین دنیا سے باہر نکالا اور اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں ، معاشی تلخیوں اور سیاسی نوعیت کے مختلف پہلوئوں کی بے لاگ مصوری کے علاوہ اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کا ذکر آزادی اور بے باکی سے کیا۔غلامی ، افلاس ، جہالت ، بھوک ، بیماری ، توہم پرستی، طبقاتی جنگ، متوسط طبقے کی کھوکھلی نمائش پسندی ، کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ ، جذباتی اور نفسیاتی الجھنیں ،الغر ض اس طرح کے بے شمار مسائل اردو افسانے کا موضوع بن گئے ۔یہی وہ ادیب تھے جنہوں نے ”کفن“ کے خالق پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا ۔
ان افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، حیات اللہ انصاری ، احمد ندیم قاسمی ، اختر حسین رائے پوری، اپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہیں۔
ان میں ہر ادیب کے افسانے پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہے۔ یہ ادیب آزادی کے بعد بھی لکھتے رہے اور نئے افسانہ نگار اس قافلے میں شامل ہوتے گئے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کو نئے مسائل کا سامنا ہوا۔ فسادات ، ہجرت ، مہاجرین اور ان کی آباد کاری اور دوسرےمسائل افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے۔ پورے برصغیر کے ساتھ مشرقی پنجاب میں ہر طرف قتل و غارت گری اور سفا کا نہ واقعات دیکھ کر ادیبوں کی روحیں چیخ اُٹھیں ان کے احساس کی شدت تلخی ان کے افسانوں میں بھی نمایاں ہوئی ۔ منٹو ، بیدی ، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی نے فسادات پر مو ثر اور فنی اعتبار سے مکمل کہانیاں لکھیں۔ ان میں منٹو کی ”موذیل“ اور” ٹوبہ ٹیک سنگھ“ اور بیدی کی ”لاجونتی“خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے اثرات سے کر ّہ ارض پر جو بے چینی اور انتشار پیدا ہوا تھاوہ اب سامنے آرہا تھااور اس نے ادیبوں کو بھی متاثر کیا۔ یوں فرد کی نفسیات کی حوالے سے قلمکاروں نے عصری شعورکے ساتھ اپنی تخلیقات میں رنگ بھرا ۔ دیکھا جائے تو ”انگارے“ ہی نے اردو افسانے کو شعور کی رو یا آزاد تلازمےStream of Conciousسے روشناس کیا۔ دوسری عالمگیر جنگ نے افسانے میں بین الاقوامیت پیدا کی اور افسانے میں عالمی اثرات کی قبولیت سے وجودیت (EXISTENTIALISM)کی فکری تحریک بھی راہ پانے لگی۔
تقسیم ہند کے بعد اردو ادب کو بہت سے قدآور افسانہ نگار میسر آئے۔ جن میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، آغا بابر، مرزا ادیب، رام لعل، رحمان مذنب، شفیق الرحمن ، الطاف فاطمہ ، ممتاز شریں ، غلام عباس وغیرہ نے افسانے کی روایت کو آگے بڑھایا عصمت چغتائی کے بعد خواتین لکھنے والیوں میں ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ اور فہمیدہ رئوف قابل ذکر ہیں۔
اشفاق احمد تک آتے آتے افسانہ نظریاتی سرحدوں کو پار کرکے اپنی نئی منزلوں کی طرف روانہ ہوا۔ ممتاز مفتی کے ہاں اگر نفسیاتی حوالے ملتے ہیں تو غلام عباس ممتاز شریں کے ہاں زندگی کے متنوع اور حقیقی موضوعات کی عکاسی ملتی ہے۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں اشفاق احمد ایسا نام ہے جس نے افسانے کا موضوع محبت اور اس کی کیفیات کو بنایا۔ اس کی محبت عام محبت نہیں بلکہ بڑی خاص گہری اور داخلی محبت ہے۔ جو مجاز سے سفر کرتے ہوئے حقیقت کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اشفاق احمد کی محبت کے لاتعداد روپ ہیں جو لڑکے اور لڑکی تک محدوود نہیں بلکہ اپنا وجود پھیلائے ہوئے وسیع کائنات میں پھیل جاتے ہیں۔ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے محرومیوں اور المیے انتشار اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں ۔ان کے افسانوں کاماحول بہت ہی عجیب و غریب ہے اس کے کردار بھی محبت کرنے کے بعد جدا ہو جاتے ہیں ۔ کسی نے لکھا ہے کہ اشفاق احمد کے کردار محبت تو کرتے ہیں لیکن جدائی ان کا مقدر ہے۔ محبت کے موضوع کے ساتھ ساتھ جدید معاشی مسائل اور نفسیاتی موضوعات بھی اشفاق احمد کے ہاں ہمیں نظر آتے ہیں ۔اُن کے ہاں رومان اور حقیقت کا امتزاج نظر آتا ہے۔یعنی ان پر پریم چند اور یلدرم دونوں کے اثرات موجود ہیں۔
اسی دور میں افسانہ نگاروں کی ایک نسل سامنے آئی اور ان میں رام لعل ، انتظار حسین، اے حمید، جیلانی بانو، واجد ہ تبسم ، اقبال متین ، آمنہ ابوالحسن، غلام الثقلین ، جوگندر پال، مسعود مفتی، شوکت صدیقی، جمیلہ ہاشمی اور رضیہ فصیح کے نام شامل ہیں۔ نئی نسل کے افسانہ نگاروں نے فارمولا بازی سے انحراف کیا اور اپنے لئے نئی راہیں تلاش کیں۔اس کے بعد افسانے میں تبدیلی کی ایک اور لہر آئی اور خارجی احوال اور داخلی کیفیات کو علامتوں ، استعاروں اور تمثیلی انداز میں پیش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔
چھٹی دہائی میں یہ رجحان علامتی اور تجریدی افسانہ کی شکل میں نمایاں ہوا۔ انور سجاد ، خالدہ حسین،سریندر پرکاش، رشید امجداور بلراج کومل نے تجرید اور علامت کے تجربے کئے۔ ۱۹۸۰ءسے موجود ہ دور کے عرصے تک افسانہ مزید دو طبقوں میں بٹ گیا اب افسانہ میں پلاٹ، کردار یا کہانی کے رنگ میں کوئی واقعہ پیش کرنے یا وحدت تا ثر کا خیال رکھنے والے قدیم کے خانے میں ڈال دیے گئے اور جدید افسانہ تمام روایتی پابندیوں اور فنی وتکنیکی باریک بینوں سے آزاد ہو گیا۔
مغربی تحریکوں کے اثرات اپنی جگہ لیکن خود ایشیااور بالخصوص برصغیر کے ماحول ، سےاسی ، معاشی اور نظریاتی گھٹن نے فرد پر جو اثرات مرتسم کئے اسی فکر نے ہی افسانے کے ڈھانچے میں تغیر و تبدل کاکام کیا۔
وجودیت ، لایعنیت اور تجریدیت کی تحریکات اور رجحانات میں علامت نگاری موضوع اور ہیئت دونوں کا بدل بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جدید ترین دور میں اردو افسانہ مروجہ خطوط اور اصولوں کو توڑ کر تجرباتی دور سے گزرنے لگا فکری لحاظ سے اس میں خوف، دہشت پسندی ، اعصابی تشنج، مایوسی اور بے خوابی جگہ پانے لگی اور ےوں افسانہ ایک نئے رخ سے آشنا ہوا۔
اس عدیم الفرصتی کے دور میں انسانی ذہن کی نفسیاتی کشمکش اور عصر حاضر کی زندگی کے تضادات اور ان کے عوامل و محرکات کو جامعیت اور فنی حسن سے پیش کرنا نئے افسانے کی ایک بڑی خوبی ہے اور انہی نئے تجربوں نے یکسانیت اور روایتی تقلید سے بھی اردو افسانے کو بچا لیا۔
افسانہ اور اس کافن:۔
اردو ادب میں افسانے کا پس منظر اور اس کے ارتقاءپر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد اگر ہم افسانے کے فن پر روشنی ڈالیں تو بے جا نہ ہوگا۔ چونکہ اردو میں افسانہ مغرب سے آیا لہٰذا اس افسانے کے فن پر بات کرتے ہوئے چند مغربی نقادین کی رائے اضافے کے متعلق ضرور جان لینی چاہیے۔ مثلاً ”ایڈگر ایلیمن پو“ کہتے ہیں:
” یہ ایک نثری داستان ہے جس کے پڑھنے میں ہمیں آدھے گھنٹے کا وقت لگے۔“
اسی طرح ایک اور مغربی نقاد اور مصنف ”سنڈی اے موسلے “ نے افسانے کی تعریف اس طرح کی ہے۔
”افسانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پڑھنے میں پندر ہ منٹ سے بیس منٹ تک کا وقت صرف ہو۔“ (٢)
مذکورہ تعریفوں میںمصنفوں نے صرف افسانے کے ایک پہلو پر زیادہ توجہ دی ہے یعنی اختصار پر۔ اگرچہ اختصار افسانے کی ایک ممتاز اور اہم خصوصیت ہے لیکن جب تک افسانے کی دوسری خصوصیات کا ذکر نہ کیا جائے جو فن کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے تو افسانے کی جامع اور مکمل تعریف ممکن نہیں۔اس سلسلے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں:
” مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر فکری داستان ہے جس میں کسی ایک کردار ، کسی ایک خاص واقعے پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ اس میں پلاٹ ہو اور اس پلاٹ کے واقعات کی تفصیلیں اس طرح گھٹی ہوئی اور اس کا بیان اس قدر منظم ہو کہ ایک وحدت پیدا ہو سکے۔“(٣)
یوں اختصار کے ساتھ ساتھ افسانے کی دوسری اہم خصوصیت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ ”وحدت تاثر “ ہے۔ ”وحدت تاثر “ ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے متعلق اکثر نقاد ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ تمام نقاد اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ افسانے میں کسی وحدت تاثر کاہونا ضروری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قاری افسانے کو پڑھنے کے بعد کوئی ایک تاثر بھر پور انداز میں قبول کرے۔ اگر افسانے میں ایک سے زیادہ تاثرات پائے جائیں گے تو اس صورت میں وحدت کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ وحدتِ تاثر کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ افسانے میں موضوع کے حوالے سے وحدت ہو۔ اگر افسانے میں ایک سے زیادہ مقاصد کی طرف توجہ ہو جائے تو اس صورت میں بہت سی فنی خرابیاں پید ا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
وحدت ِتاثر کی اہمیت کے ساتھ ساتھ افسانے میں پلاٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ پلاٹ کے سلسلے میں اکثر ناقدین کی آراءآپس میں ملتی جلتی ہیں یعنی یہ کہ پلاٹ کے واقعات میں ربط اور تسلسل ہونا چاہےے ۔ ان میں نظم و ضبط اور توازن کی کیفیت ہو اور وہ تیزی سے ارتقاءکے منازل طے کرتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچے ۔ اور آخر میں ایک منطقی انجام پر ختم ہو جائیں۔ اس نظرےے میں کلاسیکی اثرات نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ارسطو کے المیہ کے پلاٹ کے بارے میں اس قسم کے نظریات تھے۔
”المیہ میں ابتداءوسط اور انتہاءہونی چاہیے ۔“ (١)
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا پلاٹ کے بارے میں خیال ہے کہ :
” مختصر افسانوں میں کرداروں کے ارتقائی کیفیت کی تفصیل نہیں ہوتی اس لیے ظاہر ہے اس میں پلاٹ کسی نہ کسی صورت میں ہونا چاہیے ۔“ (٢)
اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ:
” لکھتے وقت ادیب بعض نفسی کیفیات سے گزرتا ہے ۔ اگر پلاٹ درست ہو تو قاری بھی کسی نہ کسی حد تک ان نفسی کیفیات سے بہر ہ ور ہو سکتا ہے اور نفسی رابطہ جنم لیتا ہے۔ جسے ادیب اور قاری میں ”مکالمہ “ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔“
افسانے میں تمہید یا آغاز کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ چیز قاری کو پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر تمہید خوبصورت اور جاندار نہ ہو تو قاری افسانے میں دلچسپی ہی نہ لے گا ۔ اس لیے افسانے کا آغاز ایسا دلچسپ اور جاندار ہونا چاہےے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے اور افسانہ پڑھنے پر مجبور کر دے۔
پلاٹ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی موقع پر کشمکش ضرور دکھائی جائے۔ یہیں سے قاری کی دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے اوریہی افسانے کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ نقطہ عروج کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مصنوعی پن اور بناوٹ نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر متوقع بھی ہو۔ وقار عظیم لکھتے ہیں کہ:
”کامیاب منتہاءکی تعریف یہ ہے کہ اس پر پہنچ کر پڑھنے والا افسانے میں اس درجہ ڈوب جائے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے گرد وپیش کی دنیا کو فراموش کر دے۔“
نقطہ عروج قاری کو افسانے کے انجام کے لیے تیار کرتا ہے تاکہ پڑھنے والے کو افسانہ غیر فطری اور غیر منطقی نہ لگے۔
افسانے کے متعلق خیال یہ تھا کہ اس کا انجام قاری کو چونکا دے ۔ اچانک کچھ اس قسم کی بات یا واقعہ ہو جو افسانے کا رخ یکسر موڑ دے قاری کو حیران کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے ۔ اردو میں اس حوالے سے ”سعادت حسن منٹو“ کا نام آتا ہے جن کے افسانے ایسے انجام کی مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے افسانوں کا انجام ابہام یا پیچیدگی یا اشاراتی کیفیتوں کا حامل نہیں ہوتاہے۔
حیثیت کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اگر ہم افسانے کے مواد اور موضوع پر نظر ڈالیں تو ہمیں افسانے کے کلاسیکی نظریات کے بجائے یہاں رومانوی رجحانات کا اثرزیادہ دکھائی دیتا ہے۔ کلاسیکی ادب مثلاً داستانوں ، مثنویوں اور قصائد وغیرہ میں آفاقی ، عمومی اور مثالی صداقتوں پر زور دیا جاتا تھا لیکن ایک ہی قسم کے بادشاہ شہزادے ، وزیر امیرزادے بزرگ دکھائی دیتے تھے اور ایک ہی قسم کے مسائل ہوتے تھے یعنی شہزادیوں وغیرہ کو حاصل کرنا اور جنوں دیوئوں وغیرہ کو شکست دینا ، جنگل میں کسی بزرگ کاملنا ، غیب سے کسی مدد کاآنا وغیرہ، اس کے برعکس دونوں تصورات میں ہمیں انفرادی اور واقعاتی حقیقتوں کا وجود نظرآتا ہے۔اس لیے آج کے دور میں افسانے کے واسطے یہ کہاجاتا ہے کہ اس میں کسی کردار ، خاص لمحہ ، احساس یا کیفیت کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ یعنی افسانے کی دنیا مثالی نہیں اس میں ہمارے معاشرے اور گردو پیش کی ساری دنیا کے حقیقی کردار اپنی انفرادیت رکھے ہوئے سامنے آتے ہیں۔
موضوعاتی طور پر یہ ہے کہ کسی خاص کردار کے ساتھ پیش آنے والا کوئی خاص واقعہ جو کردار کے اندر کوئی جذبہ اور احساس وغیرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، افسانے کاموضوع بن سکتا ہے۔ اس طرح افسانے میں ایک لمحاتی سی کیفیت ہوتی ہے جس کا اختتام تکمیل کا احساس پیدا نہیں کرتا بلکہ قاری کے دل میں تشنگی اور شوق کو زیادہ کر دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو افسانہ انسانی زندگی ہی کی تعمیر و تشریح کرتا ہے اور زندگی ہی کی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم افسانے میں زندگی کے مسائل پربراہ راست بحث نہیں کی جاتی بلکہ کسی خاص واقعے یا کردار کے ذریعے مسائل کو قاری کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔ افسانہ زندگی کے کسی ایک رخ کی جھلک دکھاتا ہے اگرچہ ہم اسے لازمی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اعلی افسانہ نگاروں کو یہ کمال حاصل ہوتا ہے کہ وہ پیچیدگیوں اور تنوع کو کسی ایک مختصر افسانے میں سمیٹ دیں۔
مندرجہ بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ افسانے میں پلاٹ ، کردار ،مکالمہ، فنی ترتیب ، آغاز ، انجام اور مناظر اور جذبہ و احساس ایسے عناصر ہیں کہ افسانے کو افسانہ بناتے ہیں ۔
مندرجہ ذیل سیر حاصل بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ادب میں افسانہ کس طرح وجود میں آیا ؟ اس کا پس منظر اور اردو ادب میں ارتقاءکس طرح ہوا اور اس کے فنی لوازم کیا ہیں؟
اب ہم اگلے باب میں اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کا فنی جائزہ لیں گے۔
باب دوم:
اردو افسانہ بیسویں صدی میں
پس منظر :۔
افسانہ کیا ہے ۔ شاید آج تک کوئی بھی نقاداور افسانہ نگار اس کی جامع تعریف نہ کر سکا ۔ اگر چہ مختلف نقاد اور افسانہ نگار اپنے انداز میں برابر اس صنف کی تعریف کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں مغربی نقاد اور مصنفین بھی شامل ہیں اور مشرقی بھی۔ لیکن اس سے پہلے ہم افسانے کے پس منظر سے آگاہی حاصل کر لیں کہ وہ کونسے حالات تھے جس نے افسانے کو جنم دیا۔
”یورپ کی صنعتی ترقی نے انسان کی مصروفیت میں مسلسل اضافہ کیا ۔ اس کا اثر جہاں زندگی کی دوسرے شعبوں میں پڑا ، وہاں ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مصروفیت میں گھر ے ہوئے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی چیز پڑھے جو کہ نہایت مختصر وقت میں اس کے ذوق کی تسکین و تشفی اور جذباتی ، نفسیاتی اور تفریحی تقاضوں کو پورا کر سکے ۔ مختصر افسانہ اسی ضرورت کی پیداوار ہے۔“ (١)
افسانہ کے لیے انگریزی میں (Short Story)اور (Fiction)کے الفاظ استعمال کیے جا تے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد مختصر وقت میں پڑھی جانے والی کہانی ہے۔ مختلف نقادوں اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر یہ اتنی جامع نہیں ہیں اس سلسلے میں مغربی ادیب ایڈ گر ایلمن افسانے کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
” یہ ایک ایسی نثر ی داستا ن ہے جس کے پڑھنے میں ہمیں آدھے گھنٹے سے دو گھنٹے کا وقت لگے۔“ (٢)
اسی طرح معروف مشرقی نقاد سید وقار عظیم مختصر افسانے کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ ان کی یہ تعریف مشرقی نقادوں میں اہمیت کی حامل ہے وہ کہتے ہیں۔
” مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر داستان کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص کردار ، ایک خاص واقعہ ، ایک تجربے یاتاثر کی وضاحت کی گئی ہو نیز اس کے پلاٹ کی تفصیل اس قدر منظم طریقے سے بیان کی گئی ہو کہ اس سے تاثر کی وحدت نمایاں ہو، افسانہ عصری قدروں کی ترجمانی کرتا ہو۔“ (١)
ہماری خاص خاص اصناف نظم و نثر میں مختصر افسانے کی عمر سب سے چھوٹی ہے۔ یعنی اس کا پورا سرمایہ کم و بیش اسی (80) سال کی ادبی سرگرمی اور کاوش کی تخلیق ہے۔ مختصر افسانے نے ایک صنف ادب کی حیثیت بیسویں صدی کے بالکل شروع میںجنم لیا اور اس وقت سے لے کر اب تک اتنی شکلیں بدلیں کہ ادب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ صورت حد درجہ غیر معمولی اور حیرت انگیز بھی ہے لیکن پہلی نظر میں حیرت و استعجاب کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس وقت کم ہونے لگتی ہے جب مطالعہ کرنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ جس معاشرتی اور سیاسی فضامیںمختصر افسانے نے جنم لیا وہ بھی اس درجہ غیر معمولی تھا کہ اس کی آغوش میں جنم لینے اور پرورش پانے والی صنف ادب میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی تو حیرت انگیز ہوتی۔
”1857ءکے انقلاب سے جن دو سیاسی قوتوں ، دوتہذیبوں اور معاشروں کے تصادم کا آغاز ہوا تھا اس نے بیسویں صدی کے شروع تک پہنچتے پہنچتے اجتماعی زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہر فرد حیران و سرگرداں حالات کی کشمکش میں گرفتار کٹھ پتلی کی طرح ادھر ادھر پھرتا تھا اور اُسے فرار کی کوئی راہ نظر نہ آتی تھی۔ حالات کی کشمکش او ر بے یقینی نے سیاسی جماعتوں کو نئے نصب العین بنانے پر مجبور کر دیا۔“ (٢)
10 مئی 1857ءکو میرٹھ میں مقیم فوج (BRD Cavalary)نے بغاوت کردی ۔ اس بغاوت کا فوری سبب یہ تھا کہ 85 فوجیوں کو ایک عدالتی فیصلے کے مطابق دس سال کی قید با مشقت دی گئی تھی۔ ان کاقصور یہ تھا کہ انھوںنے اپنی بندقوں میں ایسے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن کے سروں پر گائے اور سور کی چربی شامل تھی۔ مسلمانوں کے نزدیک سور ایک نجس اور ناپاک جانور ہے جبکہ ہندو گائے کو ماتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کا یہ خیال تھا کہ اس چربی کے استعمال کا مقصد محض ان کے دین کو خراب کرنا ہے ۔
اس کے بعد قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا اور انگریزوں کے خلاف باقاعدہ بغاوت کا آغاز ہوا۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس ملک میں انگریزوں کا اقبال بام عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی غروب ہو جائے گامگرافسو س کہ جنگ میں ہندوستانیوں کوناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو نظر بند کرکے جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اور یوں مسلمانوں کی ہندوستان پر حکومت تاریخ کا حصہ بن گئی۔
1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی صرف ایک سیاسی حادثہ نہ تھا جس کے اثرات انتظام حکومت تک محدود رہتے ۔ جبکہ اس واقعے کی بدولت زندگی کے ہرمیدان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط پر مہر ثبت کر دی گئی ۔
اور یوں معاشرتی ،سیاسی، تعلیمی ، تہذیبی،معاشی حوالے سے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے انھیں حریف کا درجہ دے دیا گیا۔ دوسری طرح انگریز کے ساتھ تعاون مسلمانوں کے خیال میں ایک گناہ کبیرہ تصور کیا جانے لگا اور یوں انگریز کا سارا عتاب مسلمانوں کے سروں پر نازل ہوا ۔
ان حالات میں جب مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تعلیم اور تہذیب کی شدید مخالف کی جارہی تھی ۔سرسید ایک نئی آواز بن کر ابھرے ان کے خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہےے۔ جس مقصد کے لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس نے بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کی اور یہ تعلیمی تحریک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کا سبب بنی ۔
مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی اور تعلیمی اور ادبی ترقی میں سب سے بڑا سبب علی گڑھ تحریک بنی ۔ اس دور میں ان تحریکوںاور افکار نے ہندوستانیوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور آہستہ آہستہ ایسے ادارے اور جماعتیں وجود میں آئیں ۔ جن کا نصب العین سیاسی جدوجہد کے ذریعے انگریز سے آزادی حاصل کرناتھا۔ ابتدائی دور میں ہندو اور مسلمان اکھٹے رہے لیکن کانگرس کے امتیازی سلوک کی بدولت مسلمانوں کو مجبوراً اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا ۔ 1902ءمیں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر بہت بڑی سیاسی جماعت بن گئی اور آخر کار پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
انگریز خود تو پرامن طریقے سے یہاں سے رخصت ہوا لیکن آزادی کے نام پرجو خون ریزی ہوئی اور جوفرقہ وارنہ فسادات ہوئے انھوں نے دونوں مملکتوں ہندوستا ن اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوئے ۔ دوسری طرح نوزائیدہ حکومتوں کے لیے مہاجرین کا سیلا ب جیسے مسائل بہت بڑے چیلنج کی صورت میں سامنے آئے ۔اور پھر بعد میں بننے والے پاکستان معاشرے کے مسائل بے روز گاری ، صنعتی ترقی ، عورتوں کی تعلیم ، زرعی نظام ، کسانوں کی حالت ان سب کا ذکر ہمارے افسانہ نگاروں کے ہاں موجود ہے۔
مختصر یہ کہ افسانہ 1857ءسے 1947ءتک کے انتشار کے زمانے میں پیدا ہوا اور اس انتشار کی وجہ سے زندگی کاصحیح عکاس بن کر سامنے آیا۔ اس اجمال کی تفصیل بڑی واضح لیکن بڑی دلخراش ہے۔
افسانے کا ارتقاء:۔
بیسویں صدی کا سورج ابھرا تو جدید انسان نے اپنے سامنے امکانات کا ایک وسیع سمندر موجزن دیکھا دنیا نئی نئی کروٹیں لے ر ہی تھی ۔ سماجی اور معاشرتی ڈھانچے میں تغیرات اور عالمی سطح پر ہونے والے انقلابات انسانی فکر و نظر پر بھی گہرے اثرات مرتب کررہے تھے۔ ادب جو انسانی زندگی اور کائنات کے ادراک کا حسیاتی ذریعہ ہے ایسی صورتحال میں نئے موضوعات ، ہیئتوں اور اصناف کے رنگوں میں انسانی جذبات کے اظہار کے اسالیب اور ادراک کے قرینے مرتب کرکے زندگی میں حقائق کی تخلیق کر رہا تھا۔
اس ضمن میں مختلف اصنافِ ادب کی نسبت اردو افسانہ اس بنا پر زیادہ اہمیت کا حامل قرار پاتا ہے کہ یہ صنف اس پوری صدی پر محیط نظرآتی ہے۔ کہ پہلی مرتبہ ایک ایسی نثری صنف نے جنم لیا جس کی محفلیں مشاعروں کے ڈھب پر منائی گئیں اور ”شامِ افسانہ“ یا ”محفل مفاسنہ“ جیسی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
اردو زبان میں مختصر افسانہ مغربی ادب کے اثر سے آیا ۔ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں مختصر افسانے سے پہلے ناول، تمثیلی قصے اور طویل افسانے لکھے گئے۔ اور جب وہاں زندگی کی کشمکش بڑھی ۔ انسان کے لئے فرصت اور فراغت کم ہوئی تو مختصر افسانہ نگاری کا رواج ہوا۔ مختصرا فسانہ ایسی افسانوی صنفِ ادب ہے جو زندگی، کردار یا واقعہ کے کسی پہلو کو مکمل طور پر اس طرح پیش کرتی ہے کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ یعنی افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جو آدھ گھنٹے سے لے کر ایک یا دو گھنٹے کے اندر پڑھی جا سکے اور کسی شخصیت کی زندگی کے اہم اور دلچسپ واقعے کو فنی شکل میں پیش کرے۔ جس میں ابتداءہو، درمیان ہو، عروج اور خاتمہ ہو اور قاری پر ایک تاثر پیدا کرے ، افسانہ ایک حقیقت پسندانہ صنفِ ادب ہے۔ انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سماج اور فطرت کی طاقتوں سے انسان کی کشمکش اس کا موضوع ہے۔
اردو میں مغربی انداز کے حقیقت پسندانہ قصے تو انیسویں صدی ہی میں لکھے جانے لگے تھے اور مولانا محمد حسین آزاد نے ”نیرنگ خیال‘ ‘ کی شکل میں تمثیلی رنگ کے قصے لکھے۔ لیکن جدید تحقیق کے مطابق علامہ راشدالخیری کے افسانے ”نصیر اور خدیجہ“ کواردو کا پہلا افسانہ قرار دیا گیا ہے۔ (١)
اردو میں باقاعدہ افسانہ نگاری کی روایت میں بیسویں صدی کے رسالوں ”مخزن“ ”زمانہ“ اور ”ادیب“ کا بڑا ہاتھ رہا ۔ منشی پریم چند ، سلطان حیدر جوش اور سجاد حیدر یلدرم نے اردو میں افسانے کے بہترین نمونے پیش کئے۔
بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری بھی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے یہ سارے ادیب ترکی یا انگریزی افسانہ نگاری سے متاثر تھے ان کے افسانوں میں زبان و بیان کی طاقت اور نفسیاتی اور فلسفیانہ بصیرت خاص اہمیت رکھتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو میں روسی ، فرانسیسی اور انگریزی کے معیاری افسانوں کے ترجمے کثرت سے شائع ہونے لگے اور ان کا اثر اردو افسانوں پر بھی پڑا۔
اردو ادب کے آسمان پر ابتداءہی میں سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند کی شخصیتیں سامنے آئیں لیکن یہ صرف و محض دو شخصیتیں یا دو افراد نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں دو بڑی ادبی تحریکیں تھیں۔ پریم چند نے برصغیر میں افسانوی فضاءقائم کی اور فن میں کچھ ایسی روایات چھوڑیں جو آج تک جاری ہیں ان کا بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کہانی میں کہانی پن بھی قائم رکھا اور اسے خیالی داستانوں اور مافوق الفطرت عناصر سے نکال کر زندگی کے صحیح حقائق سے بھی روشناس کرایا۔ پریم چند کو اپنے مقلدین کی ایک پوری جماعت مل گئی جن میں علی عباس حسینی اور اعظم کریوی سدرشن سرفہرست ہیں۔
پریم چند کے ہم عصر سجاد حیدر یلدرم ایک رومان پسند افسانہ نگار ثابت ہوئے ان کی رومان پسندی نے افسانہ کی دنیا میں انہیں ایک طرز ِ خاص کا موجد بنا دیا جو بالآخر انہیں پر ختم ہو گئی۔
اس لحاظ سے اردو افسانہ نگاری کے پہلے دور میں پریم چند نے اصلاحی رجحان اختیار کیا اور رومانوی رجحان سجاد حیدر یلدرم کی پہچان بنا ۔ ہیئت کے لحاظ سے اس دور میں زیادہ تر بیانیہ افسانے لکھے گئے۔
بیسویں صدی کا چوتھا عشرہ اقتصادی بدحالی ، کسادبازاری اور بیکاری کا دور تھا۔ اس دور میں انگارے کی اشاعت نے اردو افسانے کو ایک نیا موڑ دیا۔
اردو ادب کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری کتاب ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے ”انگارے“ کے مقابل رکھی جا سکے ۔ کتاب شائع ہوتے ہی سارے ملک میں اس کے خلاف طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ تقریباً سارے رسائل و جرائد اور چھوٹے بڑے تما م روزناموں نے اس کی مذمت میں ادارئیے لکھے اور مضامین شائع کئے گئے۔
انگارے کی اشاعت دسمبر 1932ءمیں لکھنو میں ہوئی تھی۔(٢اردو میں افسانہ نگاری کے رجحانات ڈاکٹر فردوس انور قاضی)
کتاب اور اس کے تخلیق کاروں کے خلاف منبروں کو پلیٹ فارم کی طرح استعمال کیا گیا۔ صوبہ جات متحدہ کی اسمبلی میں اس پر سوالات اُٹھائے گئے اور کتاب کی ضبطی کے مطالبے کئے گئے۔ کتابچے اور کھیل شائع کئے گئے جن میں مصنفین کو ہدفِ ملامت بنایا گیا ۔ قانونی چارہ جوئی کرکے سزا دلانے کے سلسلے میں مقدموں کے لئے فنڈ جمع کئے گئے ۔ مصنفین کو سنگسار کرنے اور پھانسی پر لٹکانے تک کی مانگ کی گئی۔
آخر کار حکومت صوبہ جات نے 15 مارچ 1933ءکو تعزیرات ہند کے تحت کتاب کی ضبطی کا حکم دی دیا۔ جس میں کہا گیا کہ اس کتاب کے ذریعے ایک طبقے کے مذہب اور مذہبی عقائد کی توہین کرکے مذہبی جذبات کو مشتعل اور برانگیختہ کیا گیا ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ1936 ءمیں قائم ہونے والی انجمن ِ ترقی پسند مصنفین کی اصل بنیاد ”انگارے“ کی اشاعت کے ساتھ 1932ءمیں رکھی گئی تھی۔
”انگارے“ میں کل دس کہانیاں ہیں سجاد ظہیر کی پانچ
( ١) نیند آتی نہیں
(٢)پھر یہ ہنگامہ
(٣)گرمیوں کی رات
(٤) دلاری
(٥) جنت کی بشارت
احمدعلی کی دو
(١) مہاوٹوں کی رات
(٢)بادل نہیں آتے
رشےد جہاں کی دو
١)دل کی سیر
٢)پردی کے پیچھے
محمود الظفر کی ایک
١)جوانمردی
1936ءکی ترقی پسند تحریک نے افسانے کو تخیل اور تصور کی رنگین دنیا سے باہر نکالا اور اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں ، معاشی تلخیوں اور سیاسی نوعیت کے مختلف پہلوئوں کی بے لاگ مصوری کے علاوہ اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کا ذکر آزادی اور بے باکی سے کیا۔غلامی ، افلاس ، جہالت ، بھوک ، بیماری ، توہم پرستی، طبقاتی جنگ، متوسط طبقے کی کھوکھلی نمائش پسندی ، کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ ، جذباتی اور نفسیاتی الجھنیں ،الغر ض اس طرح کے بے شمار مسائل اردو افسانے کا موضوع بن گئے ۔یہی وہ ادیب تھے جنہوں نے ”کفن“ کے خالق پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا ۔
ان افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، حیات اللہ انصاری ، احمد ندیم قاسمی ، اختر حسین رائے پوری، اپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہیں۔
ان میں ہر ادیب کے افسانے پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہے۔ یہ ادیب آزادی کے بعد بھی لکھتے رہے اور نئے افسانہ نگار اس قافلے میں شامل ہوتے گئے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کو نئے مسائل کا سامنا ہوا۔ فسادات ، ہجرت ، مہاجرین اور ان کی آباد کاری اور دوسرےمسائل افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے۔ پورے برصغیر کے ساتھ مشرقی پنجاب میں ہر طرف قتل و غارت گری اور سفا کا نہ واقعات دیکھ کر ادیبوں کی روحیں چیخ اُٹھیں ان کے احساس کی شدت تلخی ان کے افسانوں میں بھی نمایاں ہوئی ۔ منٹو ، بیدی ، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی نے فسادات پر مو ثر اور فنی اعتبار سے مکمل کہانیاں لکھیں۔ ان میں منٹو کی ”موذیل“ اور” ٹوبہ ٹیک سنگھ“ اور بیدی کی ”لاجونتی“خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے اثرات سے کر ّہ ارض پر جو بے چینی اور انتشار پیدا ہوا تھاوہ اب سامنے آرہا تھااور اس نے ادیبوں کو بھی متاثر کیا۔ یوں فرد کی نفسیات کی حوالے سے قلمکاروں نے عصری شعورکے ساتھ اپنی تخلیقات میں رنگ بھرا ۔ دیکھا جائے تو ”انگارے“ ہی نے اردو افسانے کو شعور کی رو یا آزاد تلازمےStream of Conciousسے روشناس کیا۔ دوسری عالمگیر جنگ نے افسانے میں بین الاقوامیت پیدا کی اور افسانے میں عالمی اثرات کی قبولیت سے وجودیت (EXISTENTIALISM)کی فکری تحریک بھی راہ پانے لگی۔
تقسیم ہند کے بعد اردو ادب کو بہت سے قدآور افسانہ نگار میسر آئے۔ جن میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، آغا بابر، مرزا ادیب، رام لعل، رحمان مذنب، شفیق الرحمن ، الطاف فاطمہ ، ممتاز شریں ، غلام عباس وغیرہ نے افسانے کی روایت کو آگے بڑھایا عصمت چغتائی کے بعد خواتین لکھنے والیوں میں ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ اور فہمیدہ رئوف قابل ذکر ہیں۔
اشفاق احمد تک آتے آتے افسانہ نظریاتی سرحدوں کو پار کرکے اپنی نئی منزلوں کی طرف روانہ ہوا۔ ممتاز مفتی کے ہاں اگر نفسیاتی حوالے ملتے ہیں تو غلام عباس ممتاز شریں کے ہاں زندگی کے متنوع اور حقیقی موضوعات کی عکاسی ملتی ہے۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں اشفاق احمد ایسا نام ہے جس نے افسانے کا موضوع محبت اور اس کی کیفیات کو بنایا۔ اس کی محبت عام محبت نہیں بلکہ بڑی خاص گہری اور داخلی محبت ہے۔ جو مجاز سے سفر کرتے ہوئے حقیقت کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اشفاق احمد کی محبت کے لاتعداد روپ ہیں جو لڑکے اور لڑکی تک محدوود نہیں بلکہ اپنا وجود پھیلائے ہوئے وسیع کائنات میں پھیل جاتے ہیں۔ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے محرومیوں اور المیے انتشار اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں ۔ان کے افسانوں کاماحول بہت ہی عجیب و غریب ہے اس کے کردار بھی محبت کرنے کے بعد جدا ہو جاتے ہیں ۔ کسی نے لکھا ہے کہ اشفاق احمد کے کردار محبت تو کرتے ہیں لیکن جدائی ان کا مقدر ہے۔ محبت کے موضوع کے ساتھ ساتھ جدید معاشی مسائل اور نفسیاتی موضوعات بھی اشفاق احمد کے ہاں ہمیں نظر آتے ہیں ۔اُن کے ہاں رومان اور حقیقت کا امتزاج نظر آتا ہے۔یعنی ان پر پریم چند اور یلدرم دونوں کے اثرات موجود ہیں۔
اسی دور میں افسانہ نگاروں کی ایک نسل سامنے آئی اور ان میں رام لعل ، انتظار حسین، اے حمید، جیلانی بانو، واجد ہ تبسم ، اقبال متین ، آمنہ ابوالحسن، غلام الثقلین ، جوگندر پال، مسعود مفتی، شوکت صدیقی، جمیلہ ہاشمی اور رضیہ فصیح کے نام شامل ہیں۔ نئی نسل کے افسانہ نگاروں نے فارمولا بازی سے انحراف کیا اور اپنے لئے نئی راہیں تلاش کیں۔اس کے بعد افسانے میں تبدیلی کی ایک اور لہر آئی اور خارجی احوال اور داخلی کیفیات کو علامتوں ، استعاروں اور تمثیلی انداز میں پیش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔
چھٹی دہائی میں یہ رجحان علامتی اور تجریدی افسانہ کی شکل میں نمایاں ہوا۔ انور سجاد ، خالدہ حسین،سریندر پرکاش، رشید امجداور بلراج کومل نے تجرید اور علامت کے تجربے کئے۔ ۱۹۸۰ءسے موجود ہ دور کے عرصے تک افسانہ مزید دو طبقوں میں بٹ گیا اب افسانہ میں پلاٹ، کردار یا کہانی کے رنگ میں کوئی واقعہ پیش کرنے یا وحدت تا ثر کا خیال رکھنے والے قدیم کے خانے میں ڈال دیے گئے اور جدید افسانہ تمام روایتی پابندیوں اور فنی وتکنیکی باریک بینوں سے آزاد ہو گیا۔
مغربی تحریکوں کے اثرات اپنی جگہ لیکن خود ایشیااور بالخصوص برصغیر کے ماحول ، سےاسی ، معاشی اور نظریاتی گھٹن نے فرد پر جو اثرات مرتسم کئے اسی فکر نے ہی افسانے کے ڈھانچے میں تغیر و تبدل کاکام کیا۔
وجودیت ، لایعنیت اور تجریدیت کی تحریکات اور رجحانات میں علامت نگاری موضوع اور ہیئت دونوں کا بدل بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جدید ترین دور میں اردو افسانہ مروجہ خطوط اور اصولوں کو توڑ کر تجرباتی دور سے گزرنے لگا فکری لحاظ سے اس میں خوف، دہشت پسندی ، اعصابی تشنج، مایوسی اور بے خوابی جگہ پانے لگی اور ےوں افسانہ ایک نئے رخ سے آشنا ہوا۔
اس عدیم الفرصتی کے دور میں انسانی ذہن کی نفسیاتی کشمکش اور عصر حاضر کی زندگی کے تضادات اور ان کے عوامل و محرکات کو جامعیت اور فنی حسن سے پیش کرنا نئے افسانے کی ایک بڑی خوبی ہے اور انہی نئے تجربوں نے یکسانیت اور روایتی تقلید سے بھی اردو افسانے کو بچا لیا۔
افسانہ اور اس کافن:۔
اردو ادب میں افسانے کا پس منظر اور اس کے ارتقاءپر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد اگر ہم افسانے کے فن پر روشنی ڈالیں تو بے جا نہ ہوگا۔ چونکہ اردو میں افسانہ مغرب سے آیا لہٰذا اس افسانے کے فن پر بات کرتے ہوئے چند مغربی نقادین کی رائے اضافے کے متعلق ضرور جان لینی چاہیے۔ مثلاً ”ایڈگر ایلیمن پو“ کہتے ہیں:
” یہ ایک نثری داستان ہے جس کے پڑھنے میں ہمیں آدھے گھنٹے کا وقت لگے۔“
اسی طرح ایک اور مغربی نقاد اور مصنف ”سنڈی اے موسلے “ نے افسانے کی تعریف اس طرح کی ہے۔
”افسانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پڑھنے میں پندر ہ منٹ سے بیس منٹ تک کا وقت صرف ہو۔“ (٢)
مذکورہ تعریفوں میںمصنفوں نے صرف افسانے کے ایک پہلو پر زیادہ توجہ دی ہے یعنی اختصار پر۔ اگرچہ اختصار افسانے کی ایک ممتاز اور اہم خصوصیت ہے لیکن جب تک افسانے کی دوسری خصوصیات کا ذکر نہ کیا جائے جو فن کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے تو افسانے کی جامع اور مکمل تعریف ممکن نہیں۔اس سلسلے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں:
” مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر فکری داستان ہے جس میں کسی ایک کردار ، کسی ایک خاص واقعے پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ اس میں پلاٹ ہو اور اس پلاٹ کے واقعات کی تفصیلیں اس طرح گھٹی ہوئی اور اس کا بیان اس قدر منظم ہو کہ ایک وحدت پیدا ہو سکے۔“(٣)
یوں اختصار کے ساتھ ساتھ افسانے کی دوسری اہم خصوصیت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ ”وحدت تاثر “ ہے۔ ”وحدت تاثر “ ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے متعلق اکثر نقاد ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ تمام نقاد اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ افسانے میں کسی وحدت تاثر کاہونا ضروری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قاری افسانے کو پڑھنے کے بعد کوئی ایک تاثر بھر پور انداز میں قبول کرے۔ اگر افسانے میں ایک سے زیادہ تاثرات پائے جائیں گے تو اس صورت میں وحدت کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ وحدتِ تاثر کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ افسانے میں موضوع کے حوالے سے وحدت ہو۔ اگر افسانے میں ایک سے زیادہ مقاصد کی طرف توجہ ہو جائے تو اس صورت میں بہت سی فنی خرابیاں پید ا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
وحدت ِتاثر کی اہمیت کے ساتھ ساتھ افسانے میں پلاٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ پلاٹ کے سلسلے میں اکثر ناقدین کی آراءآپس میں ملتی جلتی ہیں یعنی یہ کہ پلاٹ کے واقعات میں ربط اور تسلسل ہونا چاہےے ۔ ان میں نظم و ضبط اور توازن کی کیفیت ہو اور وہ تیزی سے ارتقاءکے منازل طے کرتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچے ۔ اور آخر میں ایک منطقی انجام پر ختم ہو جائیں۔ اس نظرےے میں کلاسیکی اثرات نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ارسطو کے المیہ کے پلاٹ کے بارے میں اس قسم کے نظریات تھے۔
”المیہ میں ابتداءوسط اور انتہاءہونی چاہیے ۔“ (١)
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا پلاٹ کے بارے میں خیال ہے کہ :
” مختصر افسانوں میں کرداروں کے ارتقائی کیفیت کی تفصیل نہیں ہوتی اس لیے ظاہر ہے اس میں پلاٹ کسی نہ کسی صورت میں ہونا چاہیے ۔“ (٢)
اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ:
” لکھتے وقت ادیب بعض نفسی کیفیات سے گزرتا ہے ۔ اگر پلاٹ درست ہو تو قاری بھی کسی نہ کسی حد تک ان نفسی کیفیات سے بہر ہ ور ہو سکتا ہے اور نفسی رابطہ جنم لیتا ہے۔ جسے ادیب اور قاری میں ”مکالمہ “ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔“
افسانے میں تمہید یا آغاز کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ چیز قاری کو پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر تمہید خوبصورت اور جاندار نہ ہو تو قاری افسانے میں دلچسپی ہی نہ لے گا ۔ اس لیے افسانے کا آغاز ایسا دلچسپ اور جاندار ہونا چاہےے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے اور افسانہ پڑھنے پر مجبور کر دے۔
پلاٹ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی موقع پر کشمکش ضرور دکھائی جائے۔ یہیں سے قاری کی دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے اوریہی افسانے کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ نقطہ عروج کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مصنوعی پن اور بناوٹ نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر متوقع بھی ہو۔ وقار عظیم لکھتے ہیں کہ:
”کامیاب منتہاءکی تعریف یہ ہے کہ اس پر پہنچ کر پڑھنے والا افسانے میں اس درجہ ڈوب جائے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے گرد وپیش کی دنیا کو فراموش کر دے۔“
نقطہ عروج قاری کو افسانے کے انجام کے لیے تیار کرتا ہے تاکہ پڑھنے والے کو افسانہ غیر فطری اور غیر منطقی نہ لگے۔
افسانے کے متعلق خیال یہ تھا کہ اس کا انجام قاری کو چونکا دے ۔ اچانک کچھ اس قسم کی بات یا واقعہ ہو جو افسانے کا رخ یکسر موڑ دے قاری کو حیران کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے ۔ اردو میں اس حوالے سے ”سعادت حسن منٹو“ کا نام آتا ہے جن کے افسانے ایسے انجام کی مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے افسانوں کا انجام ابہام یا پیچیدگی یا اشاراتی کیفیتوں کا حامل نہیں ہوتاہے۔
حیثیت کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اگر ہم افسانے کے مواد اور موضوع پر نظر ڈالیں تو ہمیں افسانے کے کلاسیکی نظریات کے بجائے یہاں رومانوی رجحانات کا اثرزیادہ دکھائی دیتا ہے۔ کلاسیکی ادب مثلاً داستانوں ، مثنویوں اور قصائد وغیرہ میں آفاقی ، عمومی اور مثالی صداقتوں پر زور دیا جاتا تھا لیکن ایک ہی قسم کے بادشاہ شہزادے ، وزیر امیرزادے بزرگ دکھائی دیتے تھے اور ایک ہی قسم کے مسائل ہوتے تھے یعنی شہزادیوں وغیرہ کو حاصل کرنا اور جنوں دیوئوں وغیرہ کو شکست دینا ، جنگل میں کسی بزرگ کاملنا ، غیب سے کسی مدد کاآنا وغیرہ، اس کے برعکس دونوں تصورات میں ہمیں انفرادی اور واقعاتی حقیقتوں کا وجود نظرآتا ہے۔اس لیے آج کے دور میں افسانے کے واسطے یہ کہاجاتا ہے کہ اس میں کسی کردار ، خاص لمحہ ، احساس یا کیفیت کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ یعنی افسانے کی دنیا مثالی نہیں اس میں ہمارے معاشرے اور گردو پیش کی ساری دنیا کے حقیقی کردار اپنی انفرادیت رکھے ہوئے سامنے آتے ہیں۔
موضوعاتی طور پر یہ ہے کہ کسی خاص کردار کے ساتھ پیش آنے والا کوئی خاص واقعہ جو کردار کے اندر کوئی جذبہ اور احساس وغیرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، افسانے کاموضوع بن سکتا ہے۔ اس طرح افسانے میں ایک لمحاتی سی کیفیت ہوتی ہے جس کا اختتام تکمیل کا احساس پیدا نہیں کرتا بلکہ قاری کے دل میں تشنگی اور شوق کو زیادہ کر دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو افسانہ انسانی زندگی ہی کی تعمیر و تشریح کرتا ہے اور زندگی ہی کی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم افسانے میں زندگی کے مسائل پربراہ راست بحث نہیں کی جاتی بلکہ کسی خاص واقعے یا کردار کے ذریعے مسائل کو قاری کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔ افسانہ زندگی کے کسی ایک رخ کی جھلک دکھاتا ہے اگرچہ ہم اسے لازمی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اعلی افسانہ نگاروں کو یہ کمال حاصل ہوتا ہے کہ وہ پیچیدگیوں اور تنوع کو کسی ایک مختصر افسانے میں سمیٹ دیں۔
مندرجہ بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ افسانے میں پلاٹ ، کردار ،مکالمہ، فنی ترتیب ، آغاز ، انجام اور مناظر اور جذبہ و احساس ایسے عناصر ہیں کہ افسانے کو افسانہ بناتے ہیں ۔
مندرجہ ذیل سیر حاصل بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ادب میں افسانہ کس طرح وجود میں آیا ؟ اس کا پس منظر اور اردو ادب میں ارتقاءکس طرح ہوا اور اس کے فنی لوازم کیا ہیں؟
اب ہم اگلے باب میں اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کا فنی جائزہ لیں گے۔
No comments:
Post a Comment
You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.