باب سوم 3
منظر نگاری:۔
کسی بھی کہانی میں بہ لحاظ فن تصویر کشی یا منظر نگاری انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ قاری زندگی کے مسائل اور الجھنوں میں بعض اوقات اکتاہٹ کا شکار ہونے لگتا ہے ۔ اسی لیے افسانہ نگار تھوڑی دیر کے لیے قدرتی مناظر کی لفظی تصویر کشی کے ذریعے اپنے پڑھنے والے کو تروتازہ اور پرسکون ماحول فراہم کر دیتا ہے۔ اور وہ دوبارہ افسانے کی دنیا میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا ہے۔
منظر نگاری کے حوالے سے ”ایک محبت سو افسانے “ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد نے اپنے اس افسانوی مجموعے میں منظر نگاری کے جو کرشمے دکھائے ہیں وہ اُن کی فنی باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
” باہر بڑے زور کی بارش ہو رہی تھی ۔ برساتی نالوں کا شور بڑھ گیاتھا ۔ اور سیٹیاں بجاتی ہوئی ہوا چنگھاڑنے لگی تھی بادل شدت سے دھاڑا۔ بجلی کا ایک کوندا تیزی سے لپکا اور پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر چیل کے ایک جھنڈ سے ایسے پٹاخے چھوٹے گویا مشین گن چل گئی ہو۔“ (١)
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اشفاق احمد کے اکثر افسانوں کی ابتدا ءایک خوب صورت منظرسے ہوتی ہے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال ”توتا کہانی “ کے ابتدائی پیراگراف ہےں۔ اشفاق احمد کا کمال یہ ہے کہ وہ منظر کوکہانی کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اور اُسے سب کچھ ایک جیتی جاگتی تصویر کی مانند نظر آتا ہے:
ایک دن کاشی کی سمت سے آنے والے بادل نہ جانے ادھر کیسے چلے آئے کہ سارا شہر اندھیارے کی لپیٹ میں آگیا اور موسلادھار بارش ہونے لگی ہم چاروں دوست ہاسٹل کے کمرے میں سٹو و لیمپ کے اردگرد اٹھتی ہوئی بھاپ میں اپنے سیگرٹوں کا دبیز دھواں ملا ملا کر نظارہ کر رہے تھے۔“ (٢)
اسی طر ح افسانہ ”مسکن “ کے ابتداءمیں گائوں کا ایک خوبصورت منظر یوں پیش کیا گیا ہے:
” میںاس چبوتر ے پر بیٹھا گائوں کے تنوروں سے اٹھتے ہوئے دھویں کے مرغولوں کو دیکھ رہاہوں جن میں بہت سی جانی پہچانی صورتیں گھوم رہی ہیں۔ سامنے نیم کے کسیلے اور بکائین کے بکسیلے درختوں تلے وہ بوڑھا حقہ پی رہا ہے جس کی آنکھوں میں شاید پہلی سی چمک نہیں رہی اس کی جھونپڑی سے اب بھی وہی دھواں نکل رہا ہے جو حیات کا سہارا اور زندگی کا آسرا ہے۔“ (٣)
اشفاق احمد کے افسانوں میں دو خاص طرح کے رنگ ملتے ہیں یعنی شہری اور دیہاتی رنگ ، اشفاق احمد نے جو افسانے شہری معاشرت اور ان کے مسائل پر لکھے ہیں۔ ان میں بھی منظر کشی بڑی واضح ہے۔ لیکن جو ملکہ اشفاق احمد کو دیہی زندگی کی تصویر کشی کرنے میں حاصل ہے وہ شاید کسی اور کو حاصل نہیں ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اکثر افسانوں میں دیہاتی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ ان افسانوں میں جہاں کہیں بھی اشفاق احمد کو تصویر کشی کا موقع ملا وہاںاُس نے ماہر مصورکی طرح دھنک کے رنگ بکھیرے ہیں:
” کھیتی پک کر تیار ہو گئی۔ فصل کاٹی گئی۔ کھلیان دور دور تک پھیل گئے ۔تیتریوں نے ان میں جاکر انڈے بھی دے دیے اور مرغیا ں موقع پا کر وہاں سے رسد حاصل کرنے لگیں۔ ریڈوروڈ کے بچے مرغیاں بن گئے۔ چتلی کا بچھڑا اب کسی سے باندھانہ جاتا تھا اور کاٹھیا واڑی گھوڑی اور اس کا بچھیراسارا سارا دن ہری ہری دوب چرتے رہتے ۔“ (١)
ویسے بھی ناول یا افسانوی ادب کی کسی بھی صنف میں منظر کشی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس سے واقعات کو شوخ کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ اور قاری اس منظر کشی کے پس منظر میں واقعہ کو کافی عرصہ تک یاد بھی رکھتا ہے۔ ہمیں اشفاق احمد کے افسانوں میں یہی رنگ اور یہی آہنگ نظر آتا ہے۔ ”انہوں نے ایک اپنے افسانوں میں ایسی منظر کشی کی ہے کہ ایک ماہر مصور کا کام معلوم ہوتا ہے۔ اور اُن کے لفظوں کے ذریعے منظر کشی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگتی ہے۔“(٢) افسانہ ”توبہ “ میں شادی کی تقریب کو یوں واضح کیا ہے کہ اس کے پس منظر میں ہونے والا واقعہ قاری کے ذہن پر انمٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں:
” لڑکیوں کے بالوں میں ربن بندھے تھے اور آنکھوں میں سرمہ تھا۔ لڑکوں کی جیبوں میں کھانے کی چیزیں ٹھسی ہوئی تھیں اور ہاتھوں میں ننھی ننھی چھڑیاں تھیں وہ ” ہم ٹھنڈی موسم سے آئے ہیں“ کھیل رہے تھے ۔ جب ان کا ہنگامہ بہت بڑھ گیا تو بیٹھک کے دروازے سے لیکھا نکلی ، ننگے پائوں ، اور مجھے جعفری میں بیٹھا ہوا دیکھ کر کھسکتی کھسکتی جعفری سے آلگی۔ “ (٣)
اسی طرح کسی بھی کہانی کو جزئیات کے ساتھ بیان کرنا اور اردگرد کے مناظر کی تصویر کشی ہی قاری کی توجہ بھٹکنے نہیں دیتی اور قاری اپنے آپ کوافسانے کا حصہ تصور کرنے لگتا ہے۔ افسانہ ”پناہیں “ میں جزئیات نگاری کے ساتھ ساتھ خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے جو کہ اشفاق احمد کے افسانوں کا خاصہ رہا ہے۔ مثلاً گائوں کے اسٹیشن کا یہ منظر :
” چھوٹے سے اسٹیشن پر چند مسافر اونگھ رہے تھے ایک چھابڑی والا پھل ، سگریٹ، دال روٹی اور شربت بیچ رہا تھا ۔ سارے مسافر خانے میں صرف ایک ہی پوسٹر تھا”قطار باندھ کر ٹکٹ خریدئیے“ باہر لکڑی کی ایک چھوٹی سی سبز رنگ کی جھونپڑی میں پینے کا پانی رکھا تھا۔ بینچوں پر روغن کے علاوہ میل کا ایک دبیز غلاف چڑھا ہوا تھا اور ہوا میں پھلوں ، سگریٹوں ، پان کی پیک ، پتھریلے کوئلے کے دھوئیں اور زنگ آلود لوہے کی بو لہرا رہی تھی ۔ جو ایک جگہ جمع ہو کر اسٹیشن کا نام پاتی ہے۔“ (١)
منظر نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو”ایک محبت سو افسانے “ میں ایسے افسانے میں بھی شامل ہیں جن میں 47کے فسادات میں ہونے والے ہولناک واقعات کو خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
” خاک کے ذرات چنگاریوں کی طرح گرم اور نیزے کی انیوں کی طرح نوکیلے ، پسینے سے تر جسموں میں نشتروں کی طرح اترتے چلے جارہے تھے ۔ اس پر رائفلوں کی سیٹیاں بجاتی گولیاں اور سٹین گنوں کی تڑتڑ کرتی باڑھیں ! انسان تھے سانس رکھے سب برداشت کر تے گئے ۔ بچے پیاس کی شدت سے چلا رہے تھے۔“ (٢)
منظر کشی کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کرداروں کا سراپا بھی کچھ اس طرح سے کھینچے ہیںکہ ان کی مختلف کیفیات کی داخلی تصویر ہمارے سامنے مکمل طور پر نمایاں اور واضح ہو جاتی ہے۔ جیسے افسانہ ”بابا“ میں ”ایلن “ اور ”وحید“ کی آخری ملاقات کے موقع پر ” ایلن “کی حالت کچھ یوں بیان کی ہے:
”گریبان کا اوپر کا بٹن کھلا تھا اور گلے کی نیلی نیلی رگیں مرمری جلدمیں چوڑیوں کے تاروں کی طرح خاموش پڑی تھی۔ کن پٹیوں سے اٹھے ہوئے سنہرے بالوں کے لچے آہستہ آہستہ سانس لے رہے تھے ۔ اور پر سکون پتلیوں کے پیچھے جھلملاتے آنسو کہہ رہے تھے کہ ایسی شاموں کو ہم چراغاں کیا کرتے ہیں۔“ (٣)
پلاٹ :۔
پلاٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی صنف نثر یا کہانی خواہ وہ داستان ہو ، ناول ہو ڈرامہ ہو یا افسانہ ہو اس میں کہانی یا پلاٹ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کہانی کے مربوط ہونے اور تسلسل کی وجہ سے اس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ اور قاری اس کو شروع سے لے کر آکر تک بڑی توجہ اور غور سے پڑھتا ہے۔
جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو ساخت کے اعتبار سے ہم افسانوں کو دو بڑی قسموں میں رکھ سکتے ہیں ۔ ایک وہ افسانے جن میں نبیادی اہمیت پلاٹ اور کہانی کو حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک وہ جو مخصوص کرداروں پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں کرداری افسانے کہا جاتا ہے۔ اشفاق احمد کے ہاں دونوں قسم کے افسانے ملتے ہیں ۔ جن افسانوں میں پلاٹ پر زور دیا گیا ہے ان میں پلاٹ کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھاگیا ہے۔ تمام واقعات مربوط ہیں اور ایک دوسرے کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی خلاءمحسوس نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ”بابا“ ، ”پناہیں“ اور اسی طرح دوسرے افسانے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اشفاق احمد نے اپنے افسانوں کا آغاز دلچسپ رکھا ہے۔ اور کہانی منطقی طور پر ارتقاءکی منزلیں طے کرتی اپنے نقطہ عروج تک پہنچتی ہے۔ اور پھر واقعاتی ربط کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کا اختتام زیادہ تعجب خیز اور چونکا دینے والا نہیں ہوتا ۔ شاید اس لیے کہ اُن کے مزاج کا توازن اور اعتدا ل انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔
عموماً و ہ سیدھے سادے انداز میں بات بیان کر دیتے ہیں ۔ اس میں بھی خاص تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض افسانوں میں انھوں نے غائب کردار یا راوی کی حیثیت سے کہانی بیان کر دی ہے اور بعض افسانوں میں و ہ خود ایک کردار کے طور پر ابھر تے ہیں۔اور صیغہ واحد متکلم میں بیان کرتے ہیں۔ ”توبہ “ ، ”مسکن“”سنگ دل“ ”عجیب بادشاہ“ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
کتاب میں شامل ”رات بیت رہی ہے“ واحد ایک ایسا افسانہ ہے جس کا پلاٹ خط کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ خطوط سے افسانوں کے پلاٹ تشکیل دینے کی وارثت ہمیں ”یلدرم “ اور ”پریم چند“ کے ہاں بھی مل جاتی ہے۔ جو کہ اردو کے بالکل ابتدائی افسانہ نگار ہیں۔
بعض افسانوں کے پلاٹ کہانی کے نقطہ آغا ز سے شروع ہوتے ہیں اور سیدھی سادی ترتیب سے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن کئی افسانوں میں اشفاق احمد نے فلیش بیک کا طریقہ اختیار کیا ہے جن میں ”مسکن “،”طوطا کہانی “،”عجیب بادشاہ“ اور ”پناہیں“ جیسے افسانے شامل ہیں۔
بعض کہانیاں کسی درمیانی واقعے سے شروع کی گئی ہیں پھر اس سے مربوط ماضی کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ان افسانوں میں”توبہ “ ،”رات بیت رہی ہے“ جیسے افسانے شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ اشفاق احمد نے افسانوں کے پلاٹ میں تنوع اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
وحدت تاثر :۔
افسانے کا ایک اہم جز وحدت تاثر تصور کیا جاتا ہے یعنی افسانہ نگار نے اپنے پورے افسانے میں زندگی کی کونسی اکائی بیان کی ہے۔ محبت کے متنوع رنگ ہوں یا معاشرے کے اندر کسی ایک مسئلے کی نشاندہی اشفاق احمد نے اس حوالے سے اپنے افسانوں میں وحدت تاثر کا بھر پور خیال رکھا ہے۔ انھوں نے کہانی کے اختتام پر کچھ اس قسم کی فضا پیش کی ہے کہ قاری اُسے ختم کرنے کے بعد کسی نہ کسی خاص سمت میں ضرور سوچنے لگتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں وحدت کا تاثر نمایاں ہے۔ انھوںنے اپنے افسانوں”فہیم “،”بابا“ ،”تلاش“ میں محبت کے آفاقی اور متنوع اشکال سامنے لانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ”امی“، ”پناہیں“اور ”بندرا بن کی کنج گلی میں“ جیسے افسانوں میں انسانی جذبے ، نفرت ،جنس ، حرص و لالچ اور ظلم و غیرہ کی وحد ت کو اجاگر کیا ہے۔ ان وحدتوں کا ذکر کرکے اشفاق احمد نے اپنے افسانوں کو مضبوط اور آفاقی رنگ دے کر ان کے اثر اور افادیت کو بڑھا دیا ہے۔
تجسّس و جستجو:۔
فنی لحاظ سے کہانی میں دلچسپی اور دلکشی قائم رکھنے کے لیے تجسّس و جستجو کا اہتمام انتہائی لازمی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جستجو کی برقی رو کے بغیرافسانے میں دلچسپی کے عناصر قائم نہیں رہ سکتے ۔ دوسری فنی خصوصیات کے علاوہ افسانے کی اَسّی فیصد دلچسپی کا دارومدار تجسّس وجستجو پر ہوتا ہے۔ اس لیے جب دھڑکتے دل کے ساتھ ذہن میں ہر لمحہ یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اب کیا ہوگا تو دلچسپی قائم نہیں رہ سکتی ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فنی نقطہ نظر سے تجسّس و جستجو کی اس اشد ضرورت کوفنکار نے زیر بحث مجموعے ”ایک محبت سو افسانے“ میں بطور خاص برتا ہے۔ مجموعے کا ہر افسانہ عنوان سے لے کر کہانی تک قاری پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دیتا ۔ اور قاری اختتام تک افسانے کے ساتھ مکمل توجہ اور انہماک کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
تجسّس و جستجو کے حوالے سے دیکھا جائے تو مجموعے کا پہلا افسانہ ”توبہ “ قاری کو اپنے عنوان سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے قاری کی توجہ اور دلچسپی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ خاص طور پر افسانے کا وہ حصہ جب ”لیکھا“ اور ”اعجاز“ کی خاموش محبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں کردار کیا ایک دوسرے کو پاسکیں گے ؟ کہانی کا اختتام قاری کو ایک عجیب قسم کی تشنگی سے دوچار کرتا ہے اور کہانی کے ختم ہونے کے بعد قاری کے اندر تجسّس و جستجو کی کیفیت بدستور برقرار رہتی ہے۔
افسانہ ”عجیب بادشاہ“ اپنے پہلے چند سطور کی مدد سے قاری پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے۔ ”زمان “ کی مصنف سے ملاقات قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر مصنف اور ”زمان“ کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اور زمان اتنے سالوں تک آخر کار مصنف سے دور کیوں رہا جس کا جواب آگے چل کر قاری کو ملتا ہے۔ ”زمان “ کی گذشتہ زندگی کی کہانی بھی تجسّس و جستجو سے بھر پور ہے۔ لمحہ بہ لمحہ اور گاہے بہ گاہے جب یہ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ تو ہمیں اس بات کا ہمیشہ سے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ”سیما“ اور ”زمان“ کی محبت کیا رنگ لائے گی ۔ افسانے کے آخر میں ”سہیل “ کی بیماری اور زندگی اور موت کے درمیان اس کی کشمکش بھی قاری کے لیے تجسّس و جستجو سے خالی نہیں ۔
افسانہ ”شب خون “ ابتداءسے لے کر انتہا تک قاری کو متجسس رکھتا ہے ۔”شقو “ کی بیماری دیکھ کر ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ کیا ”شقو“ اس جان لیوا بیماری کا مقابلہ کر سکے گا؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ہنستی کھیلتی زندگی کی طرف واپس لوٹ سکے گا؟کیا”بیٹرس“ کی دعائیں رنگ لائیں گی؟ آخر میں ”شقو“ کی ہارتے ہوئے جواری کی مانند المناک موت ان تمام سوالوں کے جوابات قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔
افسانہ ”توتا کہانی“ میں تجسّس و جستجو کی کیفیت اس وقت اپنی عروج پر ہوتی ہے جب ”خجستہ “ کا کردار ہمارے سامنے آتا ہے۔ اور قاری اس کی حرکتوں کی وجہ سے سوچ میں پڑ جاتا ہے ۔ مقبرہ جہانگیر میں قاری کا تجسّس اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اور قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ”خجستہ “ ،”حامد“ کو پہچان پائے گی ؟ یا ا س سے پہلے ہی اُس کی ”پھوپھی“ اور ”ماں ‘ ‘ اُن تک پہنچ جائیں گے۔ پھر کہانی کے آخر میں ”حامد“ اور ”خجستہ “ کے درمیان ہونے والی کشمکش میں بھی قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر کہانی کا انجام کیا ہوگا ؟اور کون محبت کی خاطر اپنی قربانی پیش کرے گا؟
افسانہ ”امی “ بھی تجسّس و جستجو کے فنی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے۔ ”مسعود “ کی امی سے پہلی ملاقات ہی قاری کو متجسّس کر دیتا ہے ۔ اور قاری امی کی شناخت اور اس کی شخصیت کے متعلق جاننے کا خواہشمند رہتا ہے۔ کہانی کے آخر میں” مسعود“ کی زخمی حالت میں ”امی “تک پہنچنے کی خواہش بھی اپنے اندر ایک تجسّس و جستجو کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ قاری اس دوران یہ ضرور سوچتا ہے کہ کیا ”مسعود“ امی کے پاس پہنچ جائے گا؟ یا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے گا؟
”پناہیں “ میں” آصف “کے باپ کی خود کلامی اور” آصف“ کا ذکر قاری کو یہ سوچنے پرمجبور کرتا ہے کہ آخر یہ ”آصف “کون ہے؟ اور اس کا اس بوڑھے شخص سے رشتہ کیا ہے؟ اور ایسے کیا واقعات ہو چکے ہیں جس وجہ سے” آصف“ اور اس کے باپ کے درمیان جدائی کی ایک فصیل کھڑی ہو گئی ہے؟ خصوصاً جب کہانی کے آخر میں”آصف “ کا بوڑھا باپ انجانی منزل کی جانب روانہ ہوتا ہے تو قاری اس موڑ پر یہ سوچتا ہے کہ آخر اس سفر کا انجام کیا ہوگا ؟ اور وہ کہاںپہنچ کر دم لے گا؟
افسانہ ”بابا“ میں ایک ایسی کیفیت موجود ہے جو قاری کو کسی صورت میں اپنی گرفت سے آزاد ہونے نہیں دیتی خاص طور پرجب ”وحید “ انگریز افسر سے باہر جانے کی بات کرتا ہے تو قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ کیا ”وحید“ اپنی پیاری بیوی بچوں اور باپ کو چھوڑ کر فطرت سے دور چلا جائے گا؟”ایلن“ کی زندگی اور موت کے درمیان جاری کشمکش بھی یہ سوال ہمارے سامنے لاتی ہے کہ کیا ”ایلن “ کو ”بابا“ بچا پائے گا؟ یا ”ایلن “ کربناک موت سے دوچار ہوگی؟ آخر میں مسعود کے اکیلا رہ جانے پر قاری اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ ”بابا“کے بعد ”مسعود“ کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور یہی تشنگی کی کیفیت قاری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تجسّس سے دوچار کر دیتی ہے۔
اس کے علاوہ ”فہیم “ ”تلاش “ ”مسکن “ ”بندرا بن کی کنج گلی “ ایسی کہانیاں ہیں جو فنی نقطہ نظر سے تجسّس و جستجو کے تمام اصولوں پر پورا اترتی ہیں اور قاری کی دلچسپی اور تجسّس کو بڑھا کر اُن پر اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہیں۔
اسلوب ِنگارش:۔
اگر ہم مجموعے کے افسانوں کے حوالے سے اشفاق احمد کے اسلوب نگارش کا تجزیہ کریں تو بنیادی طور پراشفاق احمد نے بیانیہ طرز تحریر اختیار کیا ہے۔ ویسے افسانہ نگاری بنیادی طور پر بیانیہ صنف نثر ہے لیکن آج کل کے افسانہ نگاروں نے اس طرز کو بد ل کر رکھ دیا ہے۔ اشفاق احمد چونکہ اپنے افسانوں میں کہانی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہانی کے اثاثی تقاضے کے پیش نظر انہوں نے بیانیہ طرز نگارش اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ بیانیہ طرز خشک اور سپاٹ قطعی طور پر نہیں بلکہ اس میں دلکشی اور دلچسپی بدرجہ اتم موجود ہے۔
اشفاق احمد کے افسانے قدرت اظہار کا مظہر ہیں انھوں نے سادہ بیانیہ انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ وسائل کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے افسانوں میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے افسانوںسے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
افسانہ ”توتا کہانی “ میں کچھ خوبصورت تشبیہات اور استعارات نے عبارت کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں مثلاً:
” بارش کے دو موٹے قطروں ایسے بڑے آنسو اس کی پلکوں پر تھرکنے لگے۔“ (١)
” اُس کے آنسو خشک ہو چکے تھے اور دھوئی دھائی آنکھوں کی سفیدی برفیلی ہو کر کافور کی ٹکیاں بن گئی تھیں اُس نے اپنے لب کھولے اور ہارمونیم کے پروں ایسے دانتوں میں اپنی سرخ سرخ زبان دبالی ۔“ (٢)
اشفاق احمد نے افسانہ ”بابا“ میں مختلف مقامات پر تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہوئے عبارت میں دلکشی اور ندرت پیدا کی ہے ۔
” اُسے معلوم تھا کہ ذرا سی ہمدردی بھی اس مون سون کے راستے میں اونچا پہاڑ بن جائے گی ۔۔۔اور شام تک اندر باہر ایسے ہی بارش ہو تی رہی۔“ (٣)
”وحید نے سگریٹ پرے پھینک کر اُس کے چہرے سے سنہرے بالوں کو پیچھے ہٹا کر دیکھا ۔ براق نگینے اُس کے گوشہ چشم سے پھسل کر ناک کی پھننگ پرذرا سی دیر کے لیے ٹھہرتے ۔“ (١)
”رات بیت رہی ہے“ ایک ایسا افسانہ ہے جو کہ خط کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ لیکن مصنف کے انداز تحریر کا کمال ہے کہ یہ افسانہ ایک خط کی بجائے ایک مکمل کہانی معلوم ہوتا ہے۔ اس افسانے میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات کا سہارا لے کر مصنف نے عبارت کو مزید خوبصورت بنایا ہے۔
” لیکن پھر تم نے بھر پور نگاہوں سے مجھے نہیں دیکھا ایسے ہی جگنو سے چھپکاتی رہی اور اُٹھ کر چلی گئی ۔“ (٢)
”مارگریٹ نے سرخ رنگ کی سکرٹ پہنی ہوئی تھی اور وہ لالے کا پھول دکھائی دیتی تھی جو آسمان سے شبنم کے ساتھ اتر ہوا ہو۔“ (٣)
”اشفاق احمد نے افسانہ ”سنگ دل “ میں مختلف اشعار کو بھی جگہ دی ہے یہ اشعار کہانی میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور برمحل اور باموقع ہونے کے سبب افسا نے کاحصہ معلوم ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر افسانے کے آخر میں یہ شعر ہیروئن کے جذبات کی مکمل عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آئو تو بلائے نہ بنے
”اشفاق احمد کے افسانہ ”بابا “ کا اسلوب ایک خاص قسم کی خوب صورتی کا حامل ہے کہانی میں ایسے بہت سے جملے ہیں جن پر شاعری کا گماں ہوتا ہے۔ اسی لیے ”وحید“ کے جملوں کے بارے میں انگریز افسربھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آپ لوگ کاشت کم کرتے ہیں اور شاعری زیادہ:
”صبح جب ایلن اصطبل کا دروازہ کھولتی ہے تو میں اپنے دریچے سے اُجالا اور پچی کو اترتے دیکھتا ہوں ۔قدم تول تول کر رکھنے کی وجہ سے ان کی ایالیں ایسے ہلتی ہیں جیسے کوٹے پر کنگھی کرتی ہوئی کوئی لڑکی نیچے صحن میں کسی کی آواز سن کر ہچکچاتی ہوئی جلدی جلدی سیڑھیاں اُترے۔“ (٤)
”بندرابن کی کنج گلی میں“ اپنی خوبصورت نثر کی بدولت ایک بے مثال افسانہ ہے۔ افسانے کے بہت سے ایسےحصے ہیں جن کو پڑھ کر شاعری کا گماں گزرتا ہے:
’ ’اس کی آنکھوں میں صبح بنارس کی سی نرمی تھی اور اس کے بال برسات کی اندھیری رات کی طرح سیاہ تھے۔ وہ دونوں ہاتھوں کو بے پروائی سے میز پر ڈالے پڑھ رہی تھی۔ انگلیاں بہت زیادہ لمبی نہ تھیں ۔ جلد بہت زیادہ سفید نہ تھی۔ مگر میز پر رکھے ہوئے وہ ہاتھ حضرت مسیح کی عبا کی دو موٹی موٹی سلوٹیں معلوم ہوتے تھے۔ کلثوم اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ اچھی لگی تھی مگر اب کی بار وہ صرف اچھی ہی نہ لگی بلکہ اپنے سے برتربھی ۔ میرا جی چاہا کہ ابن مریم کے دامن کو ایک بوسہ دے کر آنکھوں سے لگالوں مگر کلاس روم میں اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کی مجھے جرات نہ ہوئی۔“(١)
افسانہ ”سنگ دل “ میں غالب کا اثر بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غالب کے اشعار کے استعمال کے ساتھ ساتھ تشبیہات میں بھی غالب کے اشعار کا حوالہ اکثر ملتا ہے:
” وہ کیوں اس قدر حزیں تھی ؟ غالب کے شعروں کی طرح اداس اداس لیکن میٹھی میٹھی۔“ (٢)
”اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا کتنی اداس چمک تھی بالکل غالب کے شعروں جیسی ۔“ (٣)
افسانہ ”بابا“ کے مکالمے اپنے اندر رمز اور کناےے کی کیفیات بھی رکھتے ہیں جن کے اندر پوشیدہ معنی قاری کو سوچنے پر مجبو ر کرتے ہیں ۔
”یہاں مول سے بیاج زیادہ پیار ا ہوتا ہے۔“ (٤)
اس کے علاوہ ”بابا“ لپ سٹک کے بارے میں جب مسعود سے کہتا ہے کہ:
” اور یہ زہر صرف مردوں ہی پر اثر کرتا ہے۔“ (٥)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اشفاق احمد کے افسانوں میں اسلوب کی تمام تر خوب صورتی اور چاشنی موجود ہے۔ جس کی بدولت اُن کے افسانے الفاظ کے حسین و جمیل مرقعے بن گئے ہیں۔
الغرض اشفاق احمد نے فن افسانے نگاری کے تمام اصولوں کو بہترین انداز میں نبھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کردار نگاری کے حوالے سے اردو ادب کو چند خوب صورت او ر دلکش کرداروں سے نوازا ہے۔ ان کے مکالموں میں بے ساختگی اور فطری پن کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اور یہی مکالمہ آگے چل کر اُن کے شہرہ آفاق ڈراموں کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔
جزئیات کی خوب صورت تصویر کشی اور مناظر فطرت کی منظر کشی کرکے اشفاق احمد نے قاری کی دلچسپی اور توجہ افسانے کی طرف مائل رکھنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ افسانوں کا پلاٹ مربوط اور رواں ہونے کی وجہ سے کہانی میں کسی قسم کا جھول اور خلا محسوس نہیں ہوتا۔ یوں اُن کے افسانوں میں موجود تجسّس و جستجو کی کیفیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی مدد سے قاری پر ہر افسانے کی گرفت مضبوط رہتی ہے اور قاری مکمل انہماک اور دلچسپی سے آنے والے واقعات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔خوب صورت تشبیہات اور استعارات بھی اس مجموعے کا خاصہ ہےں اُن کے اسلوب میں موجودخوبصورتی اور دلکشی بیان میں ندرت اور انفرادیت پیدا کرتی ہے۔
منظر نگاری:۔
کسی بھی کہانی میں بہ لحاظ فن تصویر کشی یا منظر نگاری انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ قاری زندگی کے مسائل اور الجھنوں میں بعض اوقات اکتاہٹ کا شکار ہونے لگتا ہے ۔ اسی لیے افسانہ نگار تھوڑی دیر کے لیے قدرتی مناظر کی لفظی تصویر کشی کے ذریعے اپنے پڑھنے والے کو تروتازہ اور پرسکون ماحول فراہم کر دیتا ہے۔ اور وہ دوبارہ افسانے کی دنیا میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا ہے۔
منظر نگاری کے حوالے سے ”ایک محبت سو افسانے “ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد نے اپنے اس افسانوی مجموعے میں منظر نگاری کے جو کرشمے دکھائے ہیں وہ اُن کی فنی باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
” باہر بڑے زور کی بارش ہو رہی تھی ۔ برساتی نالوں کا شور بڑھ گیاتھا ۔ اور سیٹیاں بجاتی ہوئی ہوا چنگھاڑنے لگی تھی بادل شدت سے دھاڑا۔ بجلی کا ایک کوندا تیزی سے لپکا اور پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر چیل کے ایک جھنڈ سے ایسے پٹاخے چھوٹے گویا مشین گن چل گئی ہو۔“ (١)
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اشفاق احمد کے اکثر افسانوں کی ابتدا ءایک خوب صورت منظرسے ہوتی ہے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال ”توتا کہانی “ کے ابتدائی پیراگراف ہےں۔ اشفاق احمد کا کمال یہ ہے کہ وہ منظر کوکہانی کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اور اُسے سب کچھ ایک جیتی جاگتی تصویر کی مانند نظر آتا ہے:
ایک دن کاشی کی سمت سے آنے والے بادل نہ جانے ادھر کیسے چلے آئے کہ سارا شہر اندھیارے کی لپیٹ میں آگیا اور موسلادھار بارش ہونے لگی ہم چاروں دوست ہاسٹل کے کمرے میں سٹو و لیمپ کے اردگرد اٹھتی ہوئی بھاپ میں اپنے سیگرٹوں کا دبیز دھواں ملا ملا کر نظارہ کر رہے تھے۔“ (٢)
اسی طر ح افسانہ ”مسکن “ کے ابتداءمیں گائوں کا ایک خوبصورت منظر یوں پیش کیا گیا ہے:
” میںاس چبوتر ے پر بیٹھا گائوں کے تنوروں سے اٹھتے ہوئے دھویں کے مرغولوں کو دیکھ رہاہوں جن میں بہت سی جانی پہچانی صورتیں گھوم رہی ہیں۔ سامنے نیم کے کسیلے اور بکائین کے بکسیلے درختوں تلے وہ بوڑھا حقہ پی رہا ہے جس کی آنکھوں میں شاید پہلی سی چمک نہیں رہی اس کی جھونپڑی سے اب بھی وہی دھواں نکل رہا ہے جو حیات کا سہارا اور زندگی کا آسرا ہے۔“ (٣)
اشفاق احمد کے افسانوں میں دو خاص طرح کے رنگ ملتے ہیں یعنی شہری اور دیہاتی رنگ ، اشفاق احمد نے جو افسانے شہری معاشرت اور ان کے مسائل پر لکھے ہیں۔ ان میں بھی منظر کشی بڑی واضح ہے۔ لیکن جو ملکہ اشفاق احمد کو دیہی زندگی کی تصویر کشی کرنے میں حاصل ہے وہ شاید کسی اور کو حاصل نہیں ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اکثر افسانوں میں دیہاتی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ ان افسانوں میں جہاں کہیں بھی اشفاق احمد کو تصویر کشی کا موقع ملا وہاںاُس نے ماہر مصورکی طرح دھنک کے رنگ بکھیرے ہیں:
” کھیتی پک کر تیار ہو گئی۔ فصل کاٹی گئی۔ کھلیان دور دور تک پھیل گئے ۔تیتریوں نے ان میں جاکر انڈے بھی دے دیے اور مرغیا ں موقع پا کر وہاں سے رسد حاصل کرنے لگیں۔ ریڈوروڈ کے بچے مرغیاں بن گئے۔ چتلی کا بچھڑا اب کسی سے باندھانہ جاتا تھا اور کاٹھیا واڑی گھوڑی اور اس کا بچھیراسارا سارا دن ہری ہری دوب چرتے رہتے ۔“ (١)
ویسے بھی ناول یا افسانوی ادب کی کسی بھی صنف میں منظر کشی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس سے واقعات کو شوخ کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ اور قاری اس منظر کشی کے پس منظر میں واقعہ کو کافی عرصہ تک یاد بھی رکھتا ہے۔ ہمیں اشفاق احمد کے افسانوں میں یہی رنگ اور یہی آہنگ نظر آتا ہے۔ ”انہوں نے ایک اپنے افسانوں میں ایسی منظر کشی کی ہے کہ ایک ماہر مصور کا کام معلوم ہوتا ہے۔ اور اُن کے لفظوں کے ذریعے منظر کشی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگتی ہے۔“(٢) افسانہ ”توبہ “ میں شادی کی تقریب کو یوں واضح کیا ہے کہ اس کے پس منظر میں ہونے والا واقعہ قاری کے ذہن پر انمٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں:
” لڑکیوں کے بالوں میں ربن بندھے تھے اور آنکھوں میں سرمہ تھا۔ لڑکوں کی جیبوں میں کھانے کی چیزیں ٹھسی ہوئی تھیں اور ہاتھوں میں ننھی ننھی چھڑیاں تھیں وہ ” ہم ٹھنڈی موسم سے آئے ہیں“ کھیل رہے تھے ۔ جب ان کا ہنگامہ بہت بڑھ گیا تو بیٹھک کے دروازے سے لیکھا نکلی ، ننگے پائوں ، اور مجھے جعفری میں بیٹھا ہوا دیکھ کر کھسکتی کھسکتی جعفری سے آلگی۔ “ (٣)
اسی طرح کسی بھی کہانی کو جزئیات کے ساتھ بیان کرنا اور اردگرد کے مناظر کی تصویر کشی ہی قاری کی توجہ بھٹکنے نہیں دیتی اور قاری اپنے آپ کوافسانے کا حصہ تصور کرنے لگتا ہے۔ افسانہ ”پناہیں “ میں جزئیات نگاری کے ساتھ ساتھ خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے جو کہ اشفاق احمد کے افسانوں کا خاصہ رہا ہے۔ مثلاً گائوں کے اسٹیشن کا یہ منظر :
” چھوٹے سے اسٹیشن پر چند مسافر اونگھ رہے تھے ایک چھابڑی والا پھل ، سگریٹ، دال روٹی اور شربت بیچ رہا تھا ۔ سارے مسافر خانے میں صرف ایک ہی پوسٹر تھا”قطار باندھ کر ٹکٹ خریدئیے“ باہر لکڑی کی ایک چھوٹی سی سبز رنگ کی جھونپڑی میں پینے کا پانی رکھا تھا۔ بینچوں پر روغن کے علاوہ میل کا ایک دبیز غلاف چڑھا ہوا تھا اور ہوا میں پھلوں ، سگریٹوں ، پان کی پیک ، پتھریلے کوئلے کے دھوئیں اور زنگ آلود لوہے کی بو لہرا رہی تھی ۔ جو ایک جگہ جمع ہو کر اسٹیشن کا نام پاتی ہے۔“ (١)
منظر نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو”ایک محبت سو افسانے “ میں ایسے افسانے میں بھی شامل ہیں جن میں 47کے فسادات میں ہونے والے ہولناک واقعات کو خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
” خاک کے ذرات چنگاریوں کی طرح گرم اور نیزے کی انیوں کی طرح نوکیلے ، پسینے سے تر جسموں میں نشتروں کی طرح اترتے چلے جارہے تھے ۔ اس پر رائفلوں کی سیٹیاں بجاتی گولیاں اور سٹین گنوں کی تڑتڑ کرتی باڑھیں ! انسان تھے سانس رکھے سب برداشت کر تے گئے ۔ بچے پیاس کی شدت سے چلا رہے تھے۔“ (٢)
منظر کشی کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کرداروں کا سراپا بھی کچھ اس طرح سے کھینچے ہیںکہ ان کی مختلف کیفیات کی داخلی تصویر ہمارے سامنے مکمل طور پر نمایاں اور واضح ہو جاتی ہے۔ جیسے افسانہ ”بابا“ میں ”ایلن “ اور ”وحید“ کی آخری ملاقات کے موقع پر ” ایلن “کی حالت کچھ یوں بیان کی ہے:
”گریبان کا اوپر کا بٹن کھلا تھا اور گلے کی نیلی نیلی رگیں مرمری جلدمیں چوڑیوں کے تاروں کی طرح خاموش پڑی تھی۔ کن پٹیوں سے اٹھے ہوئے سنہرے بالوں کے لچے آہستہ آہستہ سانس لے رہے تھے ۔ اور پر سکون پتلیوں کے پیچھے جھلملاتے آنسو کہہ رہے تھے کہ ایسی شاموں کو ہم چراغاں کیا کرتے ہیں۔“ (٣)
پلاٹ :۔
پلاٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی صنف نثر یا کہانی خواہ وہ داستان ہو ، ناول ہو ڈرامہ ہو یا افسانہ ہو اس میں کہانی یا پلاٹ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کہانی کے مربوط ہونے اور تسلسل کی وجہ سے اس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ اور قاری اس کو شروع سے لے کر آکر تک بڑی توجہ اور غور سے پڑھتا ہے۔
جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو ساخت کے اعتبار سے ہم افسانوں کو دو بڑی قسموں میں رکھ سکتے ہیں ۔ ایک وہ افسانے جن میں نبیادی اہمیت پلاٹ اور کہانی کو حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک وہ جو مخصوص کرداروں پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں کرداری افسانے کہا جاتا ہے۔ اشفاق احمد کے ہاں دونوں قسم کے افسانے ملتے ہیں ۔ جن افسانوں میں پلاٹ پر زور دیا گیا ہے ان میں پلاٹ کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھاگیا ہے۔ تمام واقعات مربوط ہیں اور ایک دوسرے کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی خلاءمحسوس نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ”بابا“ ، ”پناہیں“ اور اسی طرح دوسرے افسانے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اشفاق احمد نے اپنے افسانوں کا آغاز دلچسپ رکھا ہے۔ اور کہانی منطقی طور پر ارتقاءکی منزلیں طے کرتی اپنے نقطہ عروج تک پہنچتی ہے۔ اور پھر واقعاتی ربط کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کا اختتام زیادہ تعجب خیز اور چونکا دینے والا نہیں ہوتا ۔ شاید اس لیے کہ اُن کے مزاج کا توازن اور اعتدا ل انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔
عموماً و ہ سیدھے سادے انداز میں بات بیان کر دیتے ہیں ۔ اس میں بھی خاص تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض افسانوں میں انھوں نے غائب کردار یا راوی کی حیثیت سے کہانی بیان کر دی ہے اور بعض افسانوں میں و ہ خود ایک کردار کے طور پر ابھر تے ہیں۔اور صیغہ واحد متکلم میں بیان کرتے ہیں۔ ”توبہ “ ، ”مسکن“”سنگ دل“ ”عجیب بادشاہ“ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
کتاب میں شامل ”رات بیت رہی ہے“ واحد ایک ایسا افسانہ ہے جس کا پلاٹ خط کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ خطوط سے افسانوں کے پلاٹ تشکیل دینے کی وارثت ہمیں ”یلدرم “ اور ”پریم چند“ کے ہاں بھی مل جاتی ہے۔ جو کہ اردو کے بالکل ابتدائی افسانہ نگار ہیں۔
بعض افسانوں کے پلاٹ کہانی کے نقطہ آغا ز سے شروع ہوتے ہیں اور سیدھی سادی ترتیب سے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن کئی افسانوں میں اشفاق احمد نے فلیش بیک کا طریقہ اختیار کیا ہے جن میں ”مسکن “،”طوطا کہانی “،”عجیب بادشاہ“ اور ”پناہیں“ جیسے افسانے شامل ہیں۔
بعض کہانیاں کسی درمیانی واقعے سے شروع کی گئی ہیں پھر اس سے مربوط ماضی کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ان افسانوں میں”توبہ “ ،”رات بیت رہی ہے“ جیسے افسانے شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ اشفاق احمد نے افسانوں کے پلاٹ میں تنوع اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
وحدت تاثر :۔
افسانے کا ایک اہم جز وحدت تاثر تصور کیا جاتا ہے یعنی افسانہ نگار نے اپنے پورے افسانے میں زندگی کی کونسی اکائی بیان کی ہے۔ محبت کے متنوع رنگ ہوں یا معاشرے کے اندر کسی ایک مسئلے کی نشاندہی اشفاق احمد نے اس حوالے سے اپنے افسانوں میں وحدت تاثر کا بھر پور خیال رکھا ہے۔ انھوں نے کہانی کے اختتام پر کچھ اس قسم کی فضا پیش کی ہے کہ قاری اُسے ختم کرنے کے بعد کسی نہ کسی خاص سمت میں ضرور سوچنے لگتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں وحدت کا تاثر نمایاں ہے۔ انھوںنے اپنے افسانوں”فہیم “،”بابا“ ،”تلاش“ میں محبت کے آفاقی اور متنوع اشکال سامنے لانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ”امی“، ”پناہیں“اور ”بندرا بن کی کنج گلی میں“ جیسے افسانوں میں انسانی جذبے ، نفرت ،جنس ، حرص و لالچ اور ظلم و غیرہ کی وحد ت کو اجاگر کیا ہے۔ ان وحدتوں کا ذکر کرکے اشفاق احمد نے اپنے افسانوں کو مضبوط اور آفاقی رنگ دے کر ان کے اثر اور افادیت کو بڑھا دیا ہے۔
تجسّس و جستجو:۔
فنی لحاظ سے کہانی میں دلچسپی اور دلکشی قائم رکھنے کے لیے تجسّس و جستجو کا اہتمام انتہائی لازمی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جستجو کی برقی رو کے بغیرافسانے میں دلچسپی کے عناصر قائم نہیں رہ سکتے ۔ دوسری فنی خصوصیات کے علاوہ افسانے کی اَسّی فیصد دلچسپی کا دارومدار تجسّس وجستجو پر ہوتا ہے۔ اس لیے جب دھڑکتے دل کے ساتھ ذہن میں ہر لمحہ یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اب کیا ہوگا تو دلچسپی قائم نہیں رہ سکتی ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فنی نقطہ نظر سے تجسّس و جستجو کی اس اشد ضرورت کوفنکار نے زیر بحث مجموعے ”ایک محبت سو افسانے“ میں بطور خاص برتا ہے۔ مجموعے کا ہر افسانہ عنوان سے لے کر کہانی تک قاری پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دیتا ۔ اور قاری اختتام تک افسانے کے ساتھ مکمل توجہ اور انہماک کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
تجسّس و جستجو کے حوالے سے دیکھا جائے تو مجموعے کا پہلا افسانہ ”توبہ “ قاری کو اپنے عنوان سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے قاری کی توجہ اور دلچسپی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ خاص طور پر افسانے کا وہ حصہ جب ”لیکھا“ اور ”اعجاز“ کی خاموش محبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں کردار کیا ایک دوسرے کو پاسکیں گے ؟ کہانی کا اختتام قاری کو ایک عجیب قسم کی تشنگی سے دوچار کرتا ہے اور کہانی کے ختم ہونے کے بعد قاری کے اندر تجسّس و جستجو کی کیفیت بدستور برقرار رہتی ہے۔
افسانہ ”عجیب بادشاہ“ اپنے پہلے چند سطور کی مدد سے قاری پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے۔ ”زمان “ کی مصنف سے ملاقات قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر مصنف اور ”زمان“ کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اور زمان اتنے سالوں تک آخر کار مصنف سے دور کیوں رہا جس کا جواب آگے چل کر قاری کو ملتا ہے۔ ”زمان “ کی گذشتہ زندگی کی کہانی بھی تجسّس و جستجو سے بھر پور ہے۔ لمحہ بہ لمحہ اور گاہے بہ گاہے جب یہ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ تو ہمیں اس بات کا ہمیشہ سے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ”سیما“ اور ”زمان“ کی محبت کیا رنگ لائے گی ۔ افسانے کے آخر میں ”سہیل “ کی بیماری اور زندگی اور موت کے درمیان اس کی کشمکش بھی قاری کے لیے تجسّس و جستجو سے خالی نہیں ۔
افسانہ ”شب خون “ ابتداءسے لے کر انتہا تک قاری کو متجسس رکھتا ہے ۔”شقو “ کی بیماری دیکھ کر ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ کیا ”شقو“ اس جان لیوا بیماری کا مقابلہ کر سکے گا؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ہنستی کھیلتی زندگی کی طرف واپس لوٹ سکے گا؟کیا”بیٹرس“ کی دعائیں رنگ لائیں گی؟ آخر میں ”شقو“ کی ہارتے ہوئے جواری کی مانند المناک موت ان تمام سوالوں کے جوابات قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔
افسانہ ”توتا کہانی“ میں تجسّس و جستجو کی کیفیت اس وقت اپنی عروج پر ہوتی ہے جب ”خجستہ “ کا کردار ہمارے سامنے آتا ہے۔ اور قاری اس کی حرکتوں کی وجہ سے سوچ میں پڑ جاتا ہے ۔ مقبرہ جہانگیر میں قاری کا تجسّس اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اور قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ”خجستہ “ ،”حامد“ کو پہچان پائے گی ؟ یا ا س سے پہلے ہی اُس کی ”پھوپھی“ اور ”ماں ‘ ‘ اُن تک پہنچ جائیں گے۔ پھر کہانی کے آخر میں ”حامد“ اور ”خجستہ “ کے درمیان ہونے والی کشمکش میں بھی قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر کہانی کا انجام کیا ہوگا ؟اور کون محبت کی خاطر اپنی قربانی پیش کرے گا؟
افسانہ ”امی “ بھی تجسّس و جستجو کے فنی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے۔ ”مسعود “ کی امی سے پہلی ملاقات ہی قاری کو متجسّس کر دیتا ہے ۔ اور قاری امی کی شناخت اور اس کی شخصیت کے متعلق جاننے کا خواہشمند رہتا ہے۔ کہانی کے آخر میں” مسعود“ کی زخمی حالت میں ”امی “تک پہنچنے کی خواہش بھی اپنے اندر ایک تجسّس و جستجو کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ قاری اس دوران یہ ضرور سوچتا ہے کہ کیا ”مسعود“ امی کے پاس پہنچ جائے گا؟ یا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے گا؟
”پناہیں “ میں” آصف “کے باپ کی خود کلامی اور” آصف“ کا ذکر قاری کو یہ سوچنے پرمجبور کرتا ہے کہ آخر یہ ”آصف “کون ہے؟ اور اس کا اس بوڑھے شخص سے رشتہ کیا ہے؟ اور ایسے کیا واقعات ہو چکے ہیں جس وجہ سے” آصف“ اور اس کے باپ کے درمیان جدائی کی ایک فصیل کھڑی ہو گئی ہے؟ خصوصاً جب کہانی کے آخر میں”آصف “ کا بوڑھا باپ انجانی منزل کی جانب روانہ ہوتا ہے تو قاری اس موڑ پر یہ سوچتا ہے کہ آخر اس سفر کا انجام کیا ہوگا ؟ اور وہ کہاںپہنچ کر دم لے گا؟
افسانہ ”بابا“ میں ایک ایسی کیفیت موجود ہے جو قاری کو کسی صورت میں اپنی گرفت سے آزاد ہونے نہیں دیتی خاص طور پرجب ”وحید “ انگریز افسر سے باہر جانے کی بات کرتا ہے تو قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ کیا ”وحید“ اپنی پیاری بیوی بچوں اور باپ کو چھوڑ کر فطرت سے دور چلا جائے گا؟”ایلن“ کی زندگی اور موت کے درمیان جاری کشمکش بھی یہ سوال ہمارے سامنے لاتی ہے کہ کیا ”ایلن “ کو ”بابا“ بچا پائے گا؟ یا ”ایلن “ کربناک موت سے دوچار ہوگی؟ آخر میں مسعود کے اکیلا رہ جانے پر قاری اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ ”بابا“کے بعد ”مسعود“ کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور یہی تشنگی کی کیفیت قاری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تجسّس سے دوچار کر دیتی ہے۔
اس کے علاوہ ”فہیم “ ”تلاش “ ”مسکن “ ”بندرا بن کی کنج گلی “ ایسی کہانیاں ہیں جو فنی نقطہ نظر سے تجسّس و جستجو کے تمام اصولوں پر پورا اترتی ہیں اور قاری کی دلچسپی اور تجسّس کو بڑھا کر اُن پر اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہیں۔
اسلوب ِنگارش:۔
اگر ہم مجموعے کے افسانوں کے حوالے سے اشفاق احمد کے اسلوب نگارش کا تجزیہ کریں تو بنیادی طور پراشفاق احمد نے بیانیہ طرز تحریر اختیار کیا ہے۔ ویسے افسانہ نگاری بنیادی طور پر بیانیہ صنف نثر ہے لیکن آج کل کے افسانہ نگاروں نے اس طرز کو بد ل کر رکھ دیا ہے۔ اشفاق احمد چونکہ اپنے افسانوں میں کہانی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہانی کے اثاثی تقاضے کے پیش نظر انہوں نے بیانیہ طرز نگارش اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ بیانیہ طرز خشک اور سپاٹ قطعی طور پر نہیں بلکہ اس میں دلکشی اور دلچسپی بدرجہ اتم موجود ہے۔
اشفاق احمد کے افسانے قدرت اظہار کا مظہر ہیں انھوں نے سادہ بیانیہ انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ وسائل کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے افسانوں میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے افسانوںسے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
افسانہ ”توتا کہانی “ میں کچھ خوبصورت تشبیہات اور استعارات نے عبارت کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں مثلاً:
” بارش کے دو موٹے قطروں ایسے بڑے آنسو اس کی پلکوں پر تھرکنے لگے۔“ (١)
” اُس کے آنسو خشک ہو چکے تھے اور دھوئی دھائی آنکھوں کی سفیدی برفیلی ہو کر کافور کی ٹکیاں بن گئی تھیں اُس نے اپنے لب کھولے اور ہارمونیم کے پروں ایسے دانتوں میں اپنی سرخ سرخ زبان دبالی ۔“ (٢)
اشفاق احمد نے افسانہ ”بابا“ میں مختلف مقامات پر تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہوئے عبارت میں دلکشی اور ندرت پیدا کی ہے ۔
” اُسے معلوم تھا کہ ذرا سی ہمدردی بھی اس مون سون کے راستے میں اونچا پہاڑ بن جائے گی ۔۔۔اور شام تک اندر باہر ایسے ہی بارش ہو تی رہی۔“ (٣)
”وحید نے سگریٹ پرے پھینک کر اُس کے چہرے سے سنہرے بالوں کو پیچھے ہٹا کر دیکھا ۔ براق نگینے اُس کے گوشہ چشم سے پھسل کر ناک کی پھننگ پرذرا سی دیر کے لیے ٹھہرتے ۔“ (١)
”رات بیت رہی ہے“ ایک ایسا افسانہ ہے جو کہ خط کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ لیکن مصنف کے انداز تحریر کا کمال ہے کہ یہ افسانہ ایک خط کی بجائے ایک مکمل کہانی معلوم ہوتا ہے۔ اس افسانے میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات کا سہارا لے کر مصنف نے عبارت کو مزید خوبصورت بنایا ہے۔
” لیکن پھر تم نے بھر پور نگاہوں سے مجھے نہیں دیکھا ایسے ہی جگنو سے چھپکاتی رہی اور اُٹھ کر چلی گئی ۔“ (٢)
”مارگریٹ نے سرخ رنگ کی سکرٹ پہنی ہوئی تھی اور وہ لالے کا پھول دکھائی دیتی تھی جو آسمان سے شبنم کے ساتھ اتر ہوا ہو۔“ (٣)
”اشفاق احمد نے افسانہ ”سنگ دل “ میں مختلف اشعار کو بھی جگہ دی ہے یہ اشعار کہانی میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور برمحل اور باموقع ہونے کے سبب افسا نے کاحصہ معلوم ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر افسانے کے آخر میں یہ شعر ہیروئن کے جذبات کی مکمل عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آئو تو بلائے نہ بنے
”اشفاق احمد کے افسانہ ”بابا “ کا اسلوب ایک خاص قسم کی خوب صورتی کا حامل ہے کہانی میں ایسے بہت سے جملے ہیں جن پر شاعری کا گماں ہوتا ہے۔ اسی لیے ”وحید“ کے جملوں کے بارے میں انگریز افسربھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آپ لوگ کاشت کم کرتے ہیں اور شاعری زیادہ:
”صبح جب ایلن اصطبل کا دروازہ کھولتی ہے تو میں اپنے دریچے سے اُجالا اور پچی کو اترتے دیکھتا ہوں ۔قدم تول تول کر رکھنے کی وجہ سے ان کی ایالیں ایسے ہلتی ہیں جیسے کوٹے پر کنگھی کرتی ہوئی کوئی لڑکی نیچے صحن میں کسی کی آواز سن کر ہچکچاتی ہوئی جلدی جلدی سیڑھیاں اُترے۔“ (٤)
”بندرابن کی کنج گلی میں“ اپنی خوبصورت نثر کی بدولت ایک بے مثال افسانہ ہے۔ افسانے کے بہت سے ایسےحصے ہیں جن کو پڑھ کر شاعری کا گماں گزرتا ہے:
’ ’اس کی آنکھوں میں صبح بنارس کی سی نرمی تھی اور اس کے بال برسات کی اندھیری رات کی طرح سیاہ تھے۔ وہ دونوں ہاتھوں کو بے پروائی سے میز پر ڈالے پڑھ رہی تھی۔ انگلیاں بہت زیادہ لمبی نہ تھیں ۔ جلد بہت زیادہ سفید نہ تھی۔ مگر میز پر رکھے ہوئے وہ ہاتھ حضرت مسیح کی عبا کی دو موٹی موٹی سلوٹیں معلوم ہوتے تھے۔ کلثوم اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ اچھی لگی تھی مگر اب کی بار وہ صرف اچھی ہی نہ لگی بلکہ اپنے سے برتربھی ۔ میرا جی چاہا کہ ابن مریم کے دامن کو ایک بوسہ دے کر آنکھوں سے لگالوں مگر کلاس روم میں اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کی مجھے جرات نہ ہوئی۔“(١)
افسانہ ”سنگ دل “ میں غالب کا اثر بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غالب کے اشعار کے استعمال کے ساتھ ساتھ تشبیہات میں بھی غالب کے اشعار کا حوالہ اکثر ملتا ہے:
” وہ کیوں اس قدر حزیں تھی ؟ غالب کے شعروں کی طرح اداس اداس لیکن میٹھی میٹھی۔“ (٢)
”اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا کتنی اداس چمک تھی بالکل غالب کے شعروں جیسی ۔“ (٣)
افسانہ ”بابا“ کے مکالمے اپنے اندر رمز اور کناےے کی کیفیات بھی رکھتے ہیں جن کے اندر پوشیدہ معنی قاری کو سوچنے پر مجبو ر کرتے ہیں ۔
”یہاں مول سے بیاج زیادہ پیار ا ہوتا ہے۔“ (٤)
اس کے علاوہ ”بابا“ لپ سٹک کے بارے میں جب مسعود سے کہتا ہے کہ:
” اور یہ زہر صرف مردوں ہی پر اثر کرتا ہے۔“ (٥)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اشفاق احمد کے افسانوں میں اسلوب کی تمام تر خوب صورتی اور چاشنی موجود ہے۔ جس کی بدولت اُن کے افسانے الفاظ کے حسین و جمیل مرقعے بن گئے ہیں۔
الغرض اشفاق احمد نے فن افسانے نگاری کے تمام اصولوں کو بہترین انداز میں نبھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کردار نگاری کے حوالے سے اردو ادب کو چند خوب صورت او ر دلکش کرداروں سے نوازا ہے۔ ان کے مکالموں میں بے ساختگی اور فطری پن کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اور یہی مکالمہ آگے چل کر اُن کے شہرہ آفاق ڈراموں کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔
جزئیات کی خوب صورت تصویر کشی اور مناظر فطرت کی منظر کشی کرکے اشفاق احمد نے قاری کی دلچسپی اور توجہ افسانے کی طرف مائل رکھنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ افسانوں کا پلاٹ مربوط اور رواں ہونے کی وجہ سے کہانی میں کسی قسم کا جھول اور خلا محسوس نہیں ہوتا۔ یوں اُن کے افسانوں میں موجود تجسّس و جستجو کی کیفیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی مدد سے قاری پر ہر افسانے کی گرفت مضبوط رہتی ہے اور قاری مکمل انہماک اور دلچسپی سے آنے والے واقعات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔خوب صورت تشبیہات اور استعارات بھی اس مجموعے کا خاصہ ہےں اُن کے اسلوب میں موجودخوبصورتی اور دلکشی بیان میں ندرت اور انفرادیت پیدا کرتی ہے۔
No comments:
Post a Comment
You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.