باب چہارم
باب چہارم:
”ایک محبت سو افسانے “ فکری جائزہ
اشفاق احمد قلم قبیلے کی اُس مسلک سے وابستہ ہیں جنہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھتے وقت کسی نظریاتی دبستان یا تحریک کو سیڑھی نہیں بنایا۔ان کے ہاں حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یعنی ایک طرف انھوں نے محبت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے تو دوسری طرف زندگی کی حقیقتوں اور معاشرتی مسائل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو محبت ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع دکھائی دیتا ہے ۔ محبت کی متنوع اشکال اشفاق احمد کے ہاں ملتی ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں محبت ایک عظیم کائناتی سچائی کی صورت میں ابھر تی ہے اور مجاز سے حقیقت کی طرف سفر کرتی ہے۔ موضوع کے حوالے سے دیکھا جائے تو ”توبہ “ ”اعجاز “ اور ”لیکھا “ کی محبت کی داستا ن ہے۔ ”رات بیت رہی ہے “ پائلٹ اور اُس کی محبوبہ کی رومان کی یاد جبکہ”شب خون “ ”شقو “ اور ”بیٹرس“ کی محبت کی کہانی ہے۔ اسی طرح ”توتا کہانی“ میں خوبصورت رومانوی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتے ہوئے ”حامد “ اور ”خجستہ “ کی محبت کو کہانی کا موضوع بنایا گیا ہے۔ جبکہ عجیب بادشاہ ”زمان“ اور اُس کے بیٹے اور بیوی کے درمیان ایک ان مٹ رشتے کی داستان ہے۔
افسانہ ”رات بیت رہی ہے“ میں ہمیں روحانی محبت کی مکمل تعریف اور تصویر نظرآتی ہے۔ اپنی خواہشات اور مرضی کو اپنے محبوب کے سامنے تج دینا ہی اصل محبت ہے ۔ او ر اپنے اختیار کی ٹوکری اپنے محبوب کے قدموں میں رکھ دینا محبت کاعظیم منصب ہے۔ اس افسانے میں بھی ہیرو نے اپنی خواہشات اور مرضی کو اپنی محبوبہ کے سامنے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ وہ بی ۔ اے میں داخلہ نہیں لینا چاہتا وہ خودپائلٹ نہیں بننا چاہتا لیکن اپنی محبوبہ کی مرضی سے غیر ارادی طور پر سب کچھ کر رہا ہے۔ حالانکہ جب اس کا اعتبارخدا کی ذات سے اُٹھ جاتا ے اور وہ خدا کی ذات سے منکر ہو جاتا ہے تو اپنی محبوبہ کی ایک دھمکی کے بعد اُسے ہر چیز میں خدا کا ظہور نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
تیری جنبشِ لب پر انحصار اپنا ہے
تو کہے تو جی لیں ہم تو کہے تو مر جائیں
اسی طرح افسانہ ”بابا “ پڑھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ انسان کے لیے سانس کی طرح ضروری ہے۔ اسی لیے” ایلن“ اپنے ماںباپ کو چھوڑ کر” وحید“ کے ساتھ ایک گمنام گائوں میں آباد ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اُسے” وحید“ سے گہری محبت ہے۔ اور وہ اُس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ جس کا بھر پور احساس اُسے ”وحید “ کی جدائی کے بعد ہوتا ہے جب وہ اس پچھتاوے سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہتی ہے کہ اُس نے” وحید“ کو ڈاکٹری دوبارہ جائن کرنے کا مشور ہ کیوں دیا۔ یوں ”عجیب بادشاہ“ میں بھی زمان کا بیٹا اپنی ماں سے شدید محبت کرتا ہے اور اُس کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں صرف انسانوں سے محبت کا حوالہ نہیں ملتا بلکہ اُن کے ہاں ہمیں مخلوق خدا سے محبت کرنے والے آئیڈیل کردار بھی نظر آتے ہیں۔ ان کردار وں کا نصب العین صرف انسانوں کی محبت نہیں بلکہ وہ جانوروں سے بھی اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اُن کی جدائی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پاگل ہو جاتے ہیں۔ افسانہ ”فہیم ‘ ‘ میں اشفاق احمد نے”نانا “ کے کردارکے ذریعے یہ فکر ی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو صرف ایک شخص سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں اور مخلوقات سے محبت کرنی چاہیے ۔ اور سب کو سکھ دینا چاہیے ۔ اس طرح اشفاق احمد محبت کا ایک آفاقی تصور پیش کرتے ہیں۔ آج کے مادہ پرست اور سائنسی دور میں شائد سب سے زیادہ اسی محبت کی کمی ہے۔ جس کی بدولت دنیا میں ظلم و ستم خوف، گھٹن اور انفرادی سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔افسانہ ”بابا “ کا کردار” ایلن “بھی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ تمام مخلوق خدا سے محبت میں ہی انسان کی عظمت ہے۔ اسی لیے ”ایلن“ گائے کے بچھڑے کو بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیتی ہے۔ اور آخر کار اسی وجہ سے شدید بیمار ہو کر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔یوں ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ اشفاق احمد کا پیغام صرف اور صرف محبت ہے خواہ وہ انسانوں کے ساتھ ہو یا مخلوق ِ خداکے ساتھ ہو۔
افسانہ ”تلاش“ میں بھی”احسان “ کے کردار کے ذریعے اشفاق احمد نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان محبت میں کبھی بھی جدائی کا تصور نہیں کر سکتا خواہ یہ محبت کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔” احسان“ ”جیکی “کے پیچھے دیوانگی کی حالت میں غائب ہوکر سب گھر والوں کو اشک بار چھوڑ جاتا ہے ۔ اشفاق احمد کا معصوم ”احسان “دراصل ایک علامت ہے جس کے ذریعے اشفاق احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کبھی بھی کسی اپنے کی جدائی کے کرب کو سہہ نہیں سکتا اور یہ جدائی کی کیفیت اُسے پاگل بنا دیتی ہے۔
افسانہ ”فہیم“ پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں وہ اللہ کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ ایک کامیاب اور خوش وخرم زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ان کا توکل صرف اور صرف اپنے اللہ پر ہوتا ہے ۔” نانا“ کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک بہت بڑی مثال ہے۔” نانا“ ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں میں سکھ تقسیم کرتا ہے۔ اور کبھی بھی اپنے لیے کچھ نہیں رکھتا اور جو کچھ ملتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے ۔اور اپنے اللہ پر یقین اور بھروسا رکھتا ہے۔ اگر آج کی دنیا میں” نانا“جیسے لوگ پیدا ہو ں تو دنیا سے تمام دکھوں کا خاتمہ ہو جائے ۔اور یہ دنیا جنت کی مثال بن جائے ۔
اشفاق احمد کے بارے میں اکثر نقادوں کا کہنا ہے کہ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے جدائی کے المیے سے دوچار نظرآتے ہیں ۔ اُ ن کے کرداروں کا مقدر صرف اور صرف جدائی ہے۔ اشفاق احمد کو اپنے انہی کرداروں سے محبت ہے جو کہ جدائی کے المیے کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر ”شب خون“ میں” بیٹرس“ جو ”شقو “کو دل سے چاہتی ہے ۔”شقو “کی موت کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس سے جدا ہو جاتی ہے اور” شقو “شکست خوردہ سپاہی کی طرح ”بیٹرس“ کے ہونٹوں پر اپنی جان دے کر اس دنیا سے کو چ کر جاتا ہے۔
توکسی حال میں ، میں کسی حال میں
کیسے ہم کو یہاں ایک فردا ملے
”توبہ“ کے کردار” اعجاز“ اور” لیکھا“ بھی ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ جبکہ افسانہ ”رات بیت رہی “ کے تمام کردار کسی نہ کسی صورت میں محبت میں جدائی کے دکھ کا شکار ہیں ۔”پیٹر “اپنی محبوبہ سے ملنے کی خواہش اپنے دل میں لیے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے اور افسانے کے ہیرو کی زندگی کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ جنگ اُسے اپنی محبوبہ سے ملنے کی اجازت دے گی یا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے؟افسانہ ”بابا‘ ‘ میں بھی کردار” بابا“ ، ”ایلن “، ”وحید“ ، ”مسعود“ سب کا المیہ ایک دوسرے سے جدائی ہے۔ اور کہانی کے آخر میں ان تمام کرداروں کی ایک دوسرے سے جدائی قاری کو ایک افسردہ اور غمگین کیفیت سے دوچار کرتی ہے ۔جبکہ ”سنگدل “ میں بھی جدائی کی یہی کیفیت موجود ہے۔افسانہ ”بندرا بن کی کنجگلی میں“ بھی” کلثوم“ کی موت” نمدار“ اور اُس کے درمیان نہ ختم ہونے والی جدائی کی دیوار کھڑی کرکے اختتامپذیر ہوتا ہے۔جبکہ ”پناہیں“، ”تلاش“ ، ”فہیم “ ”امی “ میں تقریباً کسی نہ کسی حوالے سے ہر کردار کا المیہ اور دکھ جدائی ہے۔
اشفاق احمد کے ہاں فطرت سے محبت کا احساس ہمیں افسانہ ”بابا “ میں نظرآتا ہے۔ انہوں نے ’وحید “کی فطرت پسندی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان چاہے جتنی ترقی کر لے لیکن آخر کار اُسے فطرت کی طرف دوبارہ مراجعت کرکے فطرت کا حصہ بن کر ہی سکون ملتا ہے۔ کیونکہ زندگی کی اصل خوبصورتی کو روح سے محسوس کرنے اور خدا کے نزدیک ہونے کا ذریعہ صرف اور صرف فطرت ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کے مادی مسائل نہ ہونے کے برابر تھے اس لیے کہ وہ فطرت سے محبت کرتا تھا اور اس فطری زندگی میںا یک اجتماعی زندگی بسر کر رہا تھا۔ او راُس کا اعتبار جسم سے زیادہ رو ح پر تھا ۔”وحید“ بھی جدید انسان کی ہو بہو تصویر ہے جو کہ مادی دور سے نکل کر فطرت کی طرف سفر کرکے اپنے کھوئے ہوئے آدرش کو پانا چاہتا ہے۔
محبت کے موضوع پر اشفاق احمد کا بھر پور اور خوبصورت افسانہ” تو تا کہا نی“ ہے جو کہ رومانوی جذبات کی غمازی کر تا ہے۔ اس افسانے میں اشفاق احمد یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ کسی بھی صورت میں دبایا یا ترک نہیں کیا جا سکتا ۔ معاشرہ ، وقت ،انسان ،ہر دور میں اس کے راستے میں حائل رہتے ہیں۔ اور انسان وقتی طور پر ان سے ڈرتا رہتا ہے۔ اور اپنے دل میں خوف کا ایک طوطا پال لیتا ہے ۔ جو کہ اُس کے اندر حالات کا خوف پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ لیکن ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب انسان اپنے اس خود ساختہ پالے ہوئے طوطے کو قابو کر لیتا ہے اور اپنے گرد بنائی گئی خود ساختہ دیوار کو گرا کر محبت کی منزل کی طرف سفر کرتا ہے۔ اور اس سفر میں وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اور اسی طرح افسانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آخر میں ”خجستہ“محبت کے معاملے میں اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی ۔
اس افسانے میں ہمیں یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ عورت اور مرد کی محبت ایک فطری عمل ہے۔ عورت کے دل میں مرد کے لیے ایک جذبہ ضرورموجودہوتا ہے۔ اور اُس کی ہمیشہ سے یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی اُسے چاہے اس سے محبت کرے۔ کہانی میں ”حامد“ ”خجستہ“ کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اُسے احساس دلاتا ہے کہ وہ شخص میں تھا جو کبھی دھیرے سے تمہیں خیالوں میں گدگدا دیتا تھا سکول کی سیڑھیوں پر تم میراانتظار کیا کرتی تھی۔ دراصل یہاں اشفاق احمد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر عورت کے دل میں ایک سپنوں کا راج کمارضرور ہوتا ہے ۔ جو کہ وقت آنے پر اُس کے سپنوں سے نکل کر حقیقت کا روپ دھا ر کر سامنے آجاتا ہے۔
اس افسانے میں حامد کی باتوں کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ محبت ایک سفر ہے ایک کہانی ہے جو کہ آگے کی سمت بڑھ رہی ہے صرف کردار بدل رہے ہیں ۔ بقول حامد،
” تم اُسی سے بیاہی جائو گی جس کے لیے تم لنکا کی پہاڑیوں میں ماری ماری پھری ہو۔“ (١)
یعنی کہانی وہی پرانی ہے سیتا اور رام کی لیکن کردار بدل گئے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
محبت کا کھیل کسی نفع او ر نقصان کا محتاج نہیں اور نہ اس کی منزل حصول ہے ،
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
لیکن مادہ پرست اور ہوس پرست ذہن اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ اُن کے ہاں جذبوں سے زیادہ چیزوں کی قدر ہوتی ہے ۔ اور یوں جو دلوں کا بیوپار کرتے ہیں وہ کبھی محبت نہیں کر سکتے اس لیے تو” حامد“” خجستہ“ کے پھوپی ذاد کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہے۔
” وہ ایک تاجر ہے اور تاجر ایسی چیزیں نہیں پالا کرتے جن سے اچھا خاصہ منافع نہ ہو۔“ (١)
جبکہ”توتا کہانی “ میں اشفاق احمد نے ”حامد “ کے دوسرے ساتھی کے حوالے سے اُن دل پھینک اور جذباتی لوگوں کی بھی نشاندہی کر دی ہے جو کہ آخر کار اپنی محبوبہ کی بجائے اپنی محبوبہ کی مرغی اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ اور خوب موج اُڑاتے ہیں۔ آج کے نئے مجنوں کی اس سے بہتر تصویر اور کیا ہو سکتی ہے۔
محبت کے کوئی بول نہیں بلکہ یہ تو محسوس کرنے کی چیز ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پیار کوئی بول نہیں پیار آواز نہیں
یہ تو خاموشی ہے سنتی ہے کہا کرتی ہے
یہ نہ بجھتی ہے نہ رکھتی ہے نہ ٹھہری ہے کہیں
نو ر کی بوند ہے صدیوں سے بہا کرتی ہے
یہ ایک احساس کا نام ہے اس لیے اظہار نہ بھی ہو انسان اس جذبے اور احساس کو دور سے محسوس کر لیتا ہے اس لیے تو ”خجستہ“ اور ”حامد “ کے درمیان آواز کا رشتہ ہونے کے باوجود ”حامد“ اور”خجستہ“ ایک دوسرے کی محبت اور جذبات سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں ۔
افسانہ ”مسکن “ ایک متوسط طبقے کے لوگوں کی ایک خوبصورت رومانوی کہانی ہے جس کو پڑھ کر حسرت کا یہ شعر باربار ذہن میں گونجتا ہے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
ہم کواب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
یہ کہانی دو نو عمر محبت کرنے والوں کی داستا ن ہے جو کہ محبت کرنے کے باوجود معاشرے کے بندھنوں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے کھل کر نہیں مل سکتے لیکن اس کے باوجود ان میں شدید قسم کے جذباتی لگائو کو بھی آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
”مسکن “ دراصل ہیرو کی رومانوی یادوں کا مجموعہ ہے اس کہانی کو پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کتنا بڑا عذاب ہے زندگی کی خوشگوار یادیں جب انسان کو یاد آتی ہیں تو ایک ایسا وقت آتا ہے کہ یہ ماضی انسان کو کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔ اور یوں ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن ا س کے بعد انسان کے پاس پچھتاوے کے احساس کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ہے اور جدائی کا المیہ اُس کے اندر کے گھائو کو وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی گہرا کر دیتا ہے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز وماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
افسانہ ”شب خون “ میں موجود خون تھوکنے کی کیفیت میں جان دینا ایک روایتی رومانوی حوالہ ہے جسے اردو شاعری میں بھی جگہ ملی ہے۔ جیسے جون ایلیا کا یہ شعر
تھوکتا ہوں جو لہو ، بوئے حنا آتی ہے
جس پہ مہندی تری پستی تھی وہی سل ہے مجھے
لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو افسانے کو پڑھ کر دنیا کی بے ثباتی اور وقتی ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ اور میر کا یہ شعر ذہن میں بار بار گردش کرتا ہے
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
افسانے میں موجود ٹی بی کی سینٹوریم میں ہمیں اپنی پوری دنیا نظر آتی ہے زندگی کتنی ناقابل اعتبار شے ہے جوآج ہے تو کل نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سینٹوریم کی طرح دنیا میں بھی ہر شخص کا اپنا ایک بیڈ ہے جو کہ اُسے ایک نہ ایک دن ضرور خالی کرنا پڑے گا۔ ”بھومکا صاحب “ کی طرح دنیا کا ہر انسان زندہ رہنا چاہتا ہے۔ جینا چاہتا ہے لیکن جب اُس کی موت آتی ہے تو اُس کے سامنے سب کچھ بے کار ہو جاتا ہے اور اُسے اپنے حصے کا بیڈ خالی کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اسی افسانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ موت کی کیفیت غالب ہونے کے باوجود پورے افسانے میں ایک رجائی کیفیت بھی نظر آتی ہے۔ ہرمریض کو پتہ ہے کہ اُسے مرنا ہے زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی ہر مریض جینا چاہتا ہے۔ ایک دو دن کی زندگی بھی یہ مریض خوشی سے گزارنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں رونے والا کوئی نہیں۔لیکن پھر بھی ان کی باتوں میں مایوسی نہیں جھلکتی ۔” شقو “کی مکالموں میں آخر میں طنز کی کیفیت صرف اُس کی مدافعت ختم ہونے کے بعد در آتی ہے جب اُس کی برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے۔
”رات بیت رہی ہے“ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں بھی قاری کو زندگی کی بے ثباتی کا احساس ضرور ہوتا ہے خاص طور پر ”پیٹر “ کی موت قاری کو ایک کرب ناک احساس سے دوچار کرتی ہے اور قاری کی نظر زندگی کی بے ثباتی پرآکر رک جاتی ہے ۔” پیٹر“ جو کہ کل تک اپنی محبوبہ کی باتیں کرتے نہیں تکتا تھا او ر ہمیشہ روشن مستقبل کے خواب دیکھتا تھا ۔ آخر کار جب اپنے ہوائی جہاز میں آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی وقتی ہے اور ہر ایک انسان کو یہاں سے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہے۔ یعنی ایک دو سانسیں اور پھر ہمیشہ کی جدائی
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
ان تمام موضوعات کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے بچوں کی نفسیات کا تجزیہ بھی کیا ہے کہ کس طرح خار ج کا ماحول بچوں کے حساس ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس حوالے سے افسانہ ”فہیم “ اپنی مثال آپ ہے ۔جس کو پڑھ کرہم محسوس کرتے ہیں کہ چھوٹے بچے بہت زیادہ حساس اور متجس ہوتے ہیں۔ اور اُن کا ذہن ہر معاملے میں سوالات اٹھاتا ہے۔ اور وہ ہر چیز کو تجسّس کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ہر واقعے کا بڑوں سے زیادہ اثر لیتے ہیں ۔ ایسی حالت میں اگر بچوں کو نظر انداز کیا جائے یا انہیں ٹوکا جائے تو اُن کے ذہن پربہت برا اثرپڑتا ہے ۔”فہیم “ کو بھی اپنے نظر انداز ہونے کا مکمل طور پر احساس ہے جس کاوہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ اشفاق احمد کے خیال میں بچوں کی اسی حساسیت کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔
افسانہ ”تلاش“ میں مصنف نے بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا ہے۔ معصوم محبت انسان کی سچی محبت ہوتی ہے خواہ وہ کسی سے بھی ہو کیونکہ اس عمر میں شعور پختہ نہیں ہوتا اورسود و زیاں کے پیمانے ذہن میں نہیں ہوتے ۔ اس لیے بچے جس کسی کو بھی چاہتے ہیں تو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ خواہ وہ انسان ہو یا جانور اُن سے محبت اُن کے ذہن پر کافی حد تک اثرانداز ہوتی ہے۔ اور اس طرح بچہ جدائی کا کرب کسی صور ت میں برداشت نہیں کر پاتا ۔
افسانہ” پناہیں “ بھی بچوں کی نفسیات کے حوالے سے ایک اہم افسا نہ ہے۔ جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچے نہایت ہی حساس ہوتے ہیں اور اپنے خارج کا اثر وہ بڑوں سے زیادہ لیتے ہیں۔ اور ایک معمولی سا واقعہ اُن کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ ”آصف “ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ معصوم بچہ اپنے والدین کے اختلافات کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی معصومیت کھو دیتا ہے۔ اور باپ کی مار اُس کے اندر اپنے باپ کا خوف پیدا کر دیتی ہے۔ جو کہ مرتے دم تک اُس کا پیچھا نہیں چھورتا اور” آصف “ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی معصومیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
یوں بچوں کو بے جاطور پر سزائیں دینا اُن کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے کافی حد تک نقصان دہ ہے۔ جس کا منفی اثر ”آصف“ کی زندگی پر آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح اشفاق احمد ہمارے بزرگوں کو ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی بقا کا واحد سہارا سمجھتے ہیں۔ افسانہ ”فہیم“ میں ”نانی “ کے کردار کے ذریعے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہماری مشرقی معاشرتی نظام میں ہمارے بزرگ ایک اہم پرزے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اور ان بزرگوںکاوجود ایک گھرانے میں کتنا اہم ہے۔ یہ بزرگ غیر محسوس طریقے سے اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مختلف کہانیوں کے ذریعے اچھی اچھی باتیں بچوں کے ذہنوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ جس سے بچوں کی مکمل ذہنی اور روحانی اور اخلاقی تربیت جاری رہتی ہے۔
یوں افسانہ ”بابا “ کا کردار ”بابا‘ ‘ بھی اس با ت کی غمازی کر تا ہے کہ ہمارے بزرگ جاہل ہونے کے باجود اپنی اچھی روایات اور عادات اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں اور اپنی نسل کی بقا ءکے لیے اپنی جان تک لڑا دیتے ہیں ۔ کیونکہ اُن کی نظر میں اُ ن کی ساری زندگی کا سرمایہ ا ن کا خاندان ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
فسادات کا موضوع اردو افسانے کا اہم موضوع رہا ہے اور ٧٤ کے دور کے اکثر افسانہ نگاروں کے ہاں ہمیں یہ موضوع نظر آتا ہے۔ جن میں سے بعض افسانہ نگار تو اُسی ہنگامی دور سے متاثر ہو کر لکھتے رہے اور اُن کے افسانے اُسی دور کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔ لیکن بعض لکھنے والوں نے فسادات کے حوالے سے لازوال افسانے تخلیق کیے ۔اُن میں اشفاق احمد بھی سرفہرست ہیں اُن کے افسانوی مجموعے میں ہمیں تقریباً ہر افسانے میں فسادات کا حوالہ کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اُن کا افسانہ ”سنگ دل “ ایک خوبصورت رومانوی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ فسادات کے حوالے سے ایک اہم افسانہ ہے جس کو پڑھ کر قاری کو احساس ہوتا ہے کہ فسادات نے انسانوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ۔ اُس دور میں کیا کچھ ہوا ۔ کتنے بے گناہ لوگ مارے گئے، کتنے سہاگ اجڑے کتنے بیٹے مرے کتنی عصمتیں لٹیں ۔ اس افسانے میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کو تقسیم کے بعد اغوا ءکرکے نجانے کن کن حالات سے دوچار کیا گیا ۔اور اُنہیں کتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اُ ن کا جنسی استحصال ہوا۔ ”حسنا“ تو خوش قسمت تھی جو کہ کسی نہ کسی طرح اس عذاب سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی لیکن نجانے اُس جیسی کتنی لڑکیاں اس عذاب میں جل کر راکھ ہو گئیں ۔
اسی افسانے میں اشفاق احمد نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ تقسیم، ہجرت اور فسادات کا اصل محرک مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھا ۔ اس دور میں لوگوں کو جس طرح سے قتل کیا گیا جس طریقے سے اُن کو لوٹا گیا اس سے ایسا لگتا تھا کہ انسان انسانیت کے درجے سے اتر کر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس دور میں ”پمی“ جیسے کردار بھی پیدا ہوئے۔ ”پمی “ ہندو مذہب سے تعلق کے باوجود مسلمان عورتوں کی عزت بچانے میں اپنی جان ، اور محبت کی بازی لگادیتی ہے ۔اس لیے کہ اُسے انسانیت سے پیار ہے اُس کے اندر کا انسان ابھی زندہ ہے اور وہ صرف انسانیت کی عظمت کو ہی اپنا مذہب تصور کرتی ہے۔ جن لوگوں کواپنے مسلمان بھائیوں نے فراموش کر دیا ہے۔ ”پمی “ اُن کے لیے بہت کچھ کرتی ہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب سے جدا ہو کر اُن کے لیے قربانی پیش کر تی ہے۔ ان سب باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ فسادات کا محرک مذہب نہیں بلکہ اس کے محرکات کچھ اور تھے جن کو صرف تیز بین نظریں ہی جان سکتی ہیں۔
”سنگ دل “ میں ”امر “ کے مکالموں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں حالات نے ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ورنہ جو لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹے رہے اور ہندوستان میں ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی ۔ اُن میں سیاسی طور پر اتنا زہر اگلا گیا کہ ہندو اور مسلم کے درمیان ایک بڑ ی دیوار حائل ہو گئی اور اس زہر سے ”امر“ جیسے معصوم بچے بھی محفوظ نہ رہ سکے ۔
اسی افسانے میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ظلم و جبر کے واقعات صرف مسلمانوں کے ساتھ پیش نہیں آئے بلکہ نجانے کتنی ہندولڑکیاں پاکستان میں رہ گئیں اُن کے ساتھ بھی وہی ہوا جو مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان میں ہوا۔ اسی لیے ”پمی “ جدا ہوتے وقت کیپٹن سے کہتی ہے کہ وہاں ”حسنا“ جیسے بہت سے پھول رہ گئے ہیں اُن کو یہاں لانے کی کوشش ضرور کرنا ۔
افسانہ ”بابا“ کا اختتامی حصہ ہمارے سامنے فسادات کی ایک بھیانک تصویر پیش کرتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں ۔ اور کتنے ہی بچوں اور بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹاگیا ۔ ہندووں بلوایوں کے نعرے اور مسلمانوں کی بے بسی دیکھ کر قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تقسیم کے اس عمل میں کتنے لوگوں کا خون بہایا گیااور کتنی بے گناہ عورتیں آزادی کے لیے قربان ہو گئیں۔ یوں ان مناظر کو دیکھ کر اُس دور میں انسان کے اندر وحشی پن اور بربریت سے پردہ اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔
اشفاق احمد کے دوسرے افسانوں ”تلاش “ ، ” پناہیں“، ” مسکن“ اور ”امی “ ، ایسی کہانیاں ہیں جن میں کسی نہ کسی حوالے سے فسادات کا ذکر موجود ہے۔ افسانہ ”پناہیں“ میں” آصف“ اور اُس کے باپ کے درمیان فسادات کی وجہ سے جدائی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فسادات نے کتنے اپنوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تباہ برباد کرکے رکھ دیا ۔
جنگ عظیم کو بھی اردو افسانے میں بہت سے مصنفین نے جگہ دی ہے اور اپنے دور کا یہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔ افسانہ ”رات بیت رہی ہے“ دوسری جنگ عظیم کی ایک مکمل تصویر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے اس افسانے کے ذریعے مصنف غیر محسوس طریقے سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی اور بربادی لاتی ہے۔ یہ جنگ ہی ہے جس نے کتنوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جداکر دیا جن کی” پیٹر“ کی طرح قبر بھی موجود نہیں ہے۔ اگر دنیا میں یہ بھیانک جنگیں نہ ہوتیں تو نجانے کتنے پیٹر آ ج اپنی ”مارگریٹ “ کے ساتھ ہوتے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
محبت اشفاق احمد کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے معاشرتی ، سماجی موضوعات پر قلم نہیں اُٹھایا ۔ اُ ن کے افسانوں میں معاشرے میں موجود منافقانہ رویے معاشرتی مسائل ان کی وجوہات بکثرت نظر آتے ہیں ۔ اُن کا افسانہ ”امی “ اس حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جن بچوں کے ماں باپ دوسری شادی کر لیتے ہیں اُن کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُن کی ذہنی اور جسمانی نشونما کتنی متاثر ہوتی ہے۔ اور یوں اس کے بعد ”مسعود“ جیسے کردار جنم لیتے ہیں ۔ شاید مصنف اس حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے کہ پرائے بچے کبھی اپنے نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے جب چچا کا اپنا بیٹا” مسعود“ کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے تو اُسے باپ کی بھرپور توجہ اور محبت میسر ہوتی ہے جبکہ ”مسعود “ کو مکمل طور پر نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔
”امی “ کا کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دوسری شادی کے بغیر بھی عورت اپنے بچوں کی مکمل اور کامیاب پرورش کر سکتی ہے اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔اس کے علاوہ اس کردار کے ذریعے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کو اپنے ماں باپ کی مکمل توجہ اور محبت میسر رہتی ہے وہ ہمیشہ معاشرے کے کامیاب اور اچھے فرد ثابت ہوتے ہیںجبکہگھر کی طرف سے ٹھکرائے جانے والے افراد معاشرے میں کسی صورت میں کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے کیونکہ نفسیاتی طورپر ایسے بچے بڑے ہو کر بھی احساس ِ کمتری کا شکارہتے ہیں اور اس احساس کمتری کا ازالہ کرنے کے لیے وہ مختلف قسم کی برائیوں اور جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی کمزوریوں کابدلہ معاشرے سے لینا چاہتے ہیں۔
”امی “ کے کردار میں اشفاق احمد نے عورت کے اندر پائے جانے والی ایک مکمل ماں کی تصویر دکھائی ہے جو کہ نہ صرف اپنے بچوں سے محبت رکھتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اس کے اندر ممتا اور محبت کا جذبہ موجود ہے۔ اس لیے وہ ”مسعود“ کو اپنے بچوں جیسا پیار کرتی ہے اور اُس کی ہر ضرورت کاخیال رکھتی ہے۔
اسی طرح اس افسانے میں مصنف نے جوئے کی لعنت پر بھی بحث کی ہے کہ کس طرح جوا کھیلنے والا شخص آخر کار اتنا گر جاتا ہے کہ اس کی نظر میں جذبوں اور رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور پھر ”مسعود“ امی جیسی پیار کرنے والی عورت سے بھی چوری کرنے اور جھوٹ بولنے سے نہیں ہچکچاتا ۔ اسی جوئے کی لعنت اور غلط سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھے کی وجہ سے آخر کار” مسعود“ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
افسانہ ”امی “ کا سب سے بڑا فکری پیغام یہ ہے کہ انسانیت کبھی نہیں مرتی ۔ معاشرہ خواہ انسان کے ساتھ کیسا ہی سلوک کرے خواہ وہ برا ہی کیوں نہ بن جائے لیکن اس کے اندر کا انسان یعنی اس کا ضمیر اُس کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں چھپا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ” مسعود“ ایک چور ہے جوا کھیلتا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے امی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی جس کی وجہ سے وہ رقم کا بندوبست کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ موت اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے اور و ہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن وہ” امی“ تک رقم پہنچانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔یعنی ”مسعود“ خود برا نہیں بلکہ اُسے معاشرے اور حالات نے برا بنا دیا ہے۔
یوں اشفاق احمد نے افسانہ ”فہیم “ کے ذریعے درمیانے طبقے میں رہنے والے بچوں کی زندگی اور حالت زار پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ درمیانے طبقے میں رہنے والے بچوں کے کیا مسائل ہیں اور کن مشکلات میں رہتے ہوئے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ رات کو ایک دوسرے کے ساتھ سوتے ہیں اور مناسب کمبل اور چارپائی نہ ہونے کے سبب سردی سے ٹھٹھرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی وہ اس سردی کو برداشت کرتے ہیں اور لڑ جھگڑ کر سو جاتے ہیں کیوں کہ ان کے گھر میں اضافی رضائی اور چارپائی لانے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں ۔
افسانہ ”پناہیں “ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ صرف اپنی انائوں کے غلام ہوتے ہیں وہ اپنے رویوں سے نہ صرف خود نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ دوسرے بھی ان سے حد درجہ متاثر ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں میں برداشت کا مادہ موجود نہ ہو وہ لوگ کسی بھی خاندان کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہوتے ہیںکیوں ایسے لوگوں کو اپنے خاندان کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر میں ان کی جیت ہی سب سے اہم ہوتی ہے اور اسی لیے ”آصف “ کے ماں باپ اپنی انائوں کی خاطر اپنے بچوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
اشفاق احمد کے خیال میں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔ان دونوں پہیوں کو ساتھ ساتھ چلانے کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے گھر کی فضاءمثالی بنتی ہے۔ اور وہ گھر جنت سے زیادہ پرسکون ہوتا ہے۔لیکن جن گھروں میں سمجھوتے کی کمی ہو اور میاں بیوی دونوں اپنی من مانی چاہتے ہیں اور ہر کوئی اپنی جیت کا دعویدار ہو تو ایسے گھرانوں کی فضاءدوزخ سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اور ایسے لوگ کبھی کامیاب ماں باپ نہیں بن سکتےبلکہ اُن کی حالت” آصف“ کے ماں باپ جیسی ہو جاتی ہے جو کہ صرف زبردستی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ باقی ان کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا جاتا ۔ یہاں تک کہ اولاد بھی اُن کے درمیان کشیدہ فضاءکو کم کرنے میں ناکام رہتیہے ۔
اس افسانے کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزر جائے تو اس کا پچھتاوا اس کو واپس لانے سے قاصر رہتاہے ۔ ”آصف“ کا باپ اگرچہ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہے اور فسادات میں ”آصف“ کی جدائی کے بعد ایک کشمکش کی کیفیت کا شکار نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ وقت کو پیچھے نہیں لے جاسکتا ۔ کیونکہ وقت ایک بے رحم درندہ ہے جس کی زد میں ہم سب لوگ آئے ہوئے ہیں۔ وقت گزر جائے تو کبھی مڑ کر نہیں دیکھتا بس آگے ہی آگے اپنا سفر طے کرتا ہے اور ہم صرف اپنی غلطیوں پر ہاتھ ملتے ہوئے رہ جاتے ہیں
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھرہاتھ آتا نہیں
افسانہ ”بابا “ میں مادہ پرست سوچ کا مذاق اُڑایا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح مادہ پرستی انسان کو فطرت اور محبت سے دور کر دیتی ہے۔ ”ایلن “ اپنی مادی سوچ کی بناءپر اپنے محبت سے بچھڑ جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اُس کا شوہر زیادہ سے زیادہ کمائے کیونکہ کھیتی باڑی میں اُس کا مستقبل محفوظ نہیں جس کی وجہ سے وہ ”وحید “ کو باہر جانے کا مشورہ دیتی ہے اور یہی مادہ پرست سوچ اُس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب سے جدا کرکے آنسو بہانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اسی کہانی میں معاشرے کے بے رحم اور منافقانہ رویوں سے بھی پردہ اُٹھایا گیا ہے ۔ ”بابا“ اپنی بہو کے لیے سب لوگوں کے سامنے گڑگڑاتا ہے ہر قسم کی منتیں کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فیس کا لالچ دیتا ہے لیکن کوئی بھی ڈاکٹر یا نرس اُس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتی ۔ کیونکہ اُنھیں کسی دوسرے کی زندگی سے کیا غرض جب وہ خود آرام سے ہیں۔ اور نرس کا یہ جملہ تو پورے پیرا میڈیکل سٹاف کے منہ پر ایک طمانچہ محسوس ہوتا ہے جب وہ” بابا“ سے کہتی ہے کہ اپنی بہو کو دم کردو تو وہ ٹھیک ہو جائے گی یعنی جن کو فرشتہ یا مسیحا کہاجاتا ہے وہ قصائی بن جائیں تو ایسے معاشرے میں عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ۔
”بندرا بن کی کنج گلی میں“ میں ”نمدار “ کا کردار بھی ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ چلنے کے لیے اپنے آپ کوبدل کر رکھ دیتے ہیں اور اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں۔ ”نمدار“ کو چونکہ کالج میں پڑھنا ہے اور اپنا سٹیٹس برقرار رکھنا ہے اس لیے وہ اپنی اصلیت دوسروں پر ظاہر کرکے اپنی سبکی نہیں کرانا چاہتا۔ یہ بھی ہمارے غریب اور درمیانے طبقے کی ستم ظریفی ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے کتنے پاپٹر بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ مداری کی طرح اپنی اصلیت کو چھپا کر اُن کی صفوں میں شامل ہو سکیں۔
افسانہ ”شب خون “ میں مصنف معاشرے کا اصل او ر بھیانک چہرہ ہمارے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اُن کے خیال میں جان ہے تو جہان ہے ۔”شقو “ جیسا قابل ، خوبصورت نوجوان جب بیمار ہوتا ہے تو اپنے بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور وہ ”شقو“ جو سب کو دل و جان سے عزیز ہوتا ہے بیماری کے بعد دنیا اور گھر والوں کے لیے بوجھ بن جاتا ہے ۔ یعنی غیرصحت مند انسان سب کے لیے بوجھ ہے جس کو سب لوگ جلد از جلد اتار پھینکنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
اس افسا نے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر محبت کرنے والے خونی رشتے دار بھی انسان کا برا وقت آنے پر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ خواہ اپنے بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مادہ پرستی کے اس دور میں رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انسان جب سے مشین بنا ہے جذبات خود بخود ختم ہو رہے ہیں۔ اس لیے جب یہ مشین کسی کام کی نہیں رہتی تو اُسے ایک بے کار چیز سمجھ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر کوئی اس کی جائیداد پر ہاتھ صاف کرنے کی سوچتا ہے اور کوئی اُس سے چھٹکارا پاناچاہتا ہے۔ افسانے میں ”شقو “ کے رشتہ داروں کا رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مصیبت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
لیکن معاشرہ ابھی تک مکمل طورپر زوال پذیر نہیں ہوا اس میں ”بیٹرس“ جیسے کردار موجود ہیں ۔ اس لیے غیر ہونے کے باوجود وہ ”شقو“ کو اپنوں سے زیادہ چاہتی ہے۔ اسی طرح معصوم ”خالد“ جس کا ذہن ابھی مکمل طورپر پروان نہیں چڑھا اور جس نے معاشرے کی خود غرض سوچ کو نہیں اپنایا ”شقو“ سے اُسی طرح محبت کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا اور اُس کی صحت کے لیے دعا گو ہے۔
باب چہارم:
”ایک محبت سو افسانے “ فکری جائزہ
اشفاق احمد قلم قبیلے کی اُس مسلک سے وابستہ ہیں جنہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھتے وقت کسی نظریاتی دبستان یا تحریک کو سیڑھی نہیں بنایا۔ان کے ہاں حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یعنی ایک طرف انھوں نے محبت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے تو دوسری طرف زندگی کی حقیقتوں اور معاشرتی مسائل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو محبت ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع دکھائی دیتا ہے ۔ محبت کی متنوع اشکال اشفاق احمد کے ہاں ملتی ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں محبت ایک عظیم کائناتی سچائی کی صورت میں ابھر تی ہے اور مجاز سے حقیقت کی طرف سفر کرتی ہے۔ موضوع کے حوالے سے دیکھا جائے تو ”توبہ “ ”اعجاز “ اور ”لیکھا “ کی محبت کی داستا ن ہے۔ ”رات بیت رہی ہے “ پائلٹ اور اُس کی محبوبہ کی رومان کی یاد جبکہ”شب خون “ ”شقو “ اور ”بیٹرس“ کی محبت کی کہانی ہے۔ اسی طرح ”توتا کہانی“ میں خوبصورت رومانوی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتے ہوئے ”حامد “ اور ”خجستہ “ کی محبت کو کہانی کا موضوع بنایا گیا ہے۔ جبکہ عجیب بادشاہ ”زمان“ اور اُس کے بیٹے اور بیوی کے درمیان ایک ان مٹ رشتے کی داستان ہے۔
افسانہ ”رات بیت رہی ہے“ میں ہمیں روحانی محبت کی مکمل تعریف اور تصویر نظرآتی ہے۔ اپنی خواہشات اور مرضی کو اپنے محبوب کے سامنے تج دینا ہی اصل محبت ہے ۔ او ر اپنے اختیار کی ٹوکری اپنے محبوب کے قدموں میں رکھ دینا محبت کاعظیم منصب ہے۔ اس افسانے میں بھی ہیرو نے اپنی خواہشات اور مرضی کو اپنی محبوبہ کے سامنے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ وہ بی ۔ اے میں داخلہ نہیں لینا چاہتا وہ خودپائلٹ نہیں بننا چاہتا لیکن اپنی محبوبہ کی مرضی سے غیر ارادی طور پر سب کچھ کر رہا ہے۔ حالانکہ جب اس کا اعتبارخدا کی ذات سے اُٹھ جاتا ے اور وہ خدا کی ذات سے منکر ہو جاتا ہے تو اپنی محبوبہ کی ایک دھمکی کے بعد اُسے ہر چیز میں خدا کا ظہور نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
تیری جنبشِ لب پر انحصار اپنا ہے
تو کہے تو جی لیں ہم تو کہے تو مر جائیں
اسی طرح افسانہ ”بابا “ پڑھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ انسان کے لیے سانس کی طرح ضروری ہے۔ اسی لیے” ایلن“ اپنے ماںباپ کو چھوڑ کر” وحید“ کے ساتھ ایک گمنام گائوں میں آباد ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اُسے” وحید“ سے گہری محبت ہے۔ اور وہ اُس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ جس کا بھر پور احساس اُسے ”وحید “ کی جدائی کے بعد ہوتا ہے جب وہ اس پچھتاوے سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہتی ہے کہ اُس نے” وحید“ کو ڈاکٹری دوبارہ جائن کرنے کا مشور ہ کیوں دیا۔ یوں ”عجیب بادشاہ“ میں بھی زمان کا بیٹا اپنی ماں سے شدید محبت کرتا ہے اور اُس کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں صرف انسانوں سے محبت کا حوالہ نہیں ملتا بلکہ اُن کے ہاں ہمیں مخلوق خدا سے محبت کرنے والے آئیڈیل کردار بھی نظر آتے ہیں۔ ان کردار وں کا نصب العین صرف انسانوں کی محبت نہیں بلکہ وہ جانوروں سے بھی اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اُن کی جدائی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پاگل ہو جاتے ہیں۔ افسانہ ”فہیم ‘ ‘ میں اشفاق احمد نے”نانا “ کے کردارکے ذریعے یہ فکر ی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو صرف ایک شخص سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں اور مخلوقات سے محبت کرنی چاہیے ۔ اور سب کو سکھ دینا چاہیے ۔ اس طرح اشفاق احمد محبت کا ایک آفاقی تصور پیش کرتے ہیں۔ آج کے مادہ پرست اور سائنسی دور میں شائد سب سے زیادہ اسی محبت کی کمی ہے۔ جس کی بدولت دنیا میں ظلم و ستم خوف، گھٹن اور انفرادی سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔افسانہ ”بابا “ کا کردار” ایلن “بھی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ تمام مخلوق خدا سے محبت میں ہی انسان کی عظمت ہے۔ اسی لیے ”ایلن“ گائے کے بچھڑے کو بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیتی ہے۔ اور آخر کار اسی وجہ سے شدید بیمار ہو کر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔یوں ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ اشفاق احمد کا پیغام صرف اور صرف محبت ہے خواہ وہ انسانوں کے ساتھ ہو یا مخلوق ِ خداکے ساتھ ہو۔
افسانہ ”تلاش“ میں بھی”احسان “ کے کردار کے ذریعے اشفاق احمد نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان محبت میں کبھی بھی جدائی کا تصور نہیں کر سکتا خواہ یہ محبت کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔” احسان“ ”جیکی “کے پیچھے دیوانگی کی حالت میں غائب ہوکر سب گھر والوں کو اشک بار چھوڑ جاتا ہے ۔ اشفاق احمد کا معصوم ”احسان “دراصل ایک علامت ہے جس کے ذریعے اشفاق احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کبھی بھی کسی اپنے کی جدائی کے کرب کو سہہ نہیں سکتا اور یہ جدائی کی کیفیت اُسے پاگل بنا دیتی ہے۔
افسانہ ”فہیم“ پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں وہ اللہ کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ ایک کامیاب اور خوش وخرم زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ان کا توکل صرف اور صرف اپنے اللہ پر ہوتا ہے ۔” نانا“ کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک بہت بڑی مثال ہے۔” نانا“ ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں میں سکھ تقسیم کرتا ہے۔ اور کبھی بھی اپنے لیے کچھ نہیں رکھتا اور جو کچھ ملتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے ۔اور اپنے اللہ پر یقین اور بھروسا رکھتا ہے۔ اگر آج کی دنیا میں” نانا“جیسے لوگ پیدا ہو ں تو دنیا سے تمام دکھوں کا خاتمہ ہو جائے ۔اور یہ دنیا جنت کی مثال بن جائے ۔
اشفاق احمد کے بارے میں اکثر نقادوں کا کہنا ہے کہ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے جدائی کے المیے سے دوچار نظرآتے ہیں ۔ اُ ن کے کرداروں کا مقدر صرف اور صرف جدائی ہے۔ اشفاق احمد کو اپنے انہی کرداروں سے محبت ہے جو کہ جدائی کے المیے کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر ”شب خون“ میں” بیٹرس“ جو ”شقو “کو دل سے چاہتی ہے ۔”شقو “کی موت کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس سے جدا ہو جاتی ہے اور” شقو “شکست خوردہ سپاہی کی طرح ”بیٹرس“ کے ہونٹوں پر اپنی جان دے کر اس دنیا سے کو چ کر جاتا ہے۔
توکسی حال میں ، میں کسی حال میں
کیسے ہم کو یہاں ایک فردا ملے
”توبہ“ کے کردار” اعجاز“ اور” لیکھا“ بھی ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ جبکہ افسانہ ”رات بیت رہی “ کے تمام کردار کسی نہ کسی صورت میں محبت میں جدائی کے دکھ کا شکار ہیں ۔”پیٹر “اپنی محبوبہ سے ملنے کی خواہش اپنے دل میں لیے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے اور افسانے کے ہیرو کی زندگی کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ جنگ اُسے اپنی محبوبہ سے ملنے کی اجازت دے گی یا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے؟افسانہ ”بابا‘ ‘ میں بھی کردار” بابا“ ، ”ایلن “، ”وحید“ ، ”مسعود“ سب کا المیہ ایک دوسرے سے جدائی ہے۔ اور کہانی کے آخر میں ان تمام کرداروں کی ایک دوسرے سے جدائی قاری کو ایک افسردہ اور غمگین کیفیت سے دوچار کرتی ہے ۔جبکہ ”سنگدل “ میں بھی جدائی کی یہی کیفیت موجود ہے۔افسانہ ”بندرا بن کی کنجگلی میں“ بھی” کلثوم“ کی موت” نمدار“ اور اُس کے درمیان نہ ختم ہونے والی جدائی کی دیوار کھڑی کرکے اختتامپذیر ہوتا ہے۔جبکہ ”پناہیں“، ”تلاش“ ، ”فہیم “ ”امی “ میں تقریباً کسی نہ کسی حوالے سے ہر کردار کا المیہ اور دکھ جدائی ہے۔
اشفاق احمد کے ہاں فطرت سے محبت کا احساس ہمیں افسانہ ”بابا “ میں نظرآتا ہے۔ انہوں نے ’وحید “کی فطرت پسندی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان چاہے جتنی ترقی کر لے لیکن آخر کار اُسے فطرت کی طرف دوبارہ مراجعت کرکے فطرت کا حصہ بن کر ہی سکون ملتا ہے۔ کیونکہ زندگی کی اصل خوبصورتی کو روح سے محسوس کرنے اور خدا کے نزدیک ہونے کا ذریعہ صرف اور صرف فطرت ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کے مادی مسائل نہ ہونے کے برابر تھے اس لیے کہ وہ فطرت سے محبت کرتا تھا اور اس فطری زندگی میںا یک اجتماعی زندگی بسر کر رہا تھا۔ او راُس کا اعتبار جسم سے زیادہ رو ح پر تھا ۔”وحید“ بھی جدید انسان کی ہو بہو تصویر ہے جو کہ مادی دور سے نکل کر فطرت کی طرف سفر کرکے اپنے کھوئے ہوئے آدرش کو پانا چاہتا ہے۔
محبت کے موضوع پر اشفاق احمد کا بھر پور اور خوبصورت افسانہ” تو تا کہا نی“ ہے جو کہ رومانوی جذبات کی غمازی کر تا ہے۔ اس افسانے میں اشفاق احمد یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ کسی بھی صورت میں دبایا یا ترک نہیں کیا جا سکتا ۔ معاشرہ ، وقت ،انسان ،ہر دور میں اس کے راستے میں حائل رہتے ہیں۔ اور انسان وقتی طور پر ان سے ڈرتا رہتا ہے۔ اور اپنے دل میں خوف کا ایک طوطا پال لیتا ہے ۔ جو کہ اُس کے اندر حالات کا خوف پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ لیکن ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب انسان اپنے اس خود ساختہ پالے ہوئے طوطے کو قابو کر لیتا ہے اور اپنے گرد بنائی گئی خود ساختہ دیوار کو گرا کر محبت کی منزل کی طرف سفر کرتا ہے۔ اور اس سفر میں وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اور اسی طرح افسانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آخر میں ”خجستہ“محبت کے معاملے میں اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی ۔
اس افسانے میں ہمیں یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ عورت اور مرد کی محبت ایک فطری عمل ہے۔ عورت کے دل میں مرد کے لیے ایک جذبہ ضرورموجودہوتا ہے۔ اور اُس کی ہمیشہ سے یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی اُسے چاہے اس سے محبت کرے۔ کہانی میں ”حامد“ ”خجستہ“ کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اُسے احساس دلاتا ہے کہ وہ شخص میں تھا جو کبھی دھیرے سے تمہیں خیالوں میں گدگدا دیتا تھا سکول کی سیڑھیوں پر تم میراانتظار کیا کرتی تھی۔ دراصل یہاں اشفاق احمد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر عورت کے دل میں ایک سپنوں کا راج کمارضرور ہوتا ہے ۔ جو کہ وقت آنے پر اُس کے سپنوں سے نکل کر حقیقت کا روپ دھا ر کر سامنے آجاتا ہے۔
اس افسانے میں حامد کی باتوں کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ محبت ایک سفر ہے ایک کہانی ہے جو کہ آگے کی سمت بڑھ رہی ہے صرف کردار بدل رہے ہیں ۔ بقول حامد،
” تم اُسی سے بیاہی جائو گی جس کے لیے تم لنکا کی پہاڑیوں میں ماری ماری پھری ہو۔“ (١)
یعنی کہانی وہی پرانی ہے سیتا اور رام کی لیکن کردار بدل گئے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
محبت کا کھیل کسی نفع او ر نقصان کا محتاج نہیں اور نہ اس کی منزل حصول ہے ،
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
لیکن مادہ پرست اور ہوس پرست ذہن اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ اُن کے ہاں جذبوں سے زیادہ چیزوں کی قدر ہوتی ہے ۔ اور یوں جو دلوں کا بیوپار کرتے ہیں وہ کبھی محبت نہیں کر سکتے اس لیے تو” حامد“” خجستہ“ کے پھوپی ذاد کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہے۔
” وہ ایک تاجر ہے اور تاجر ایسی چیزیں نہیں پالا کرتے جن سے اچھا خاصہ منافع نہ ہو۔“ (١)
جبکہ”توتا کہانی “ میں اشفاق احمد نے ”حامد “ کے دوسرے ساتھی کے حوالے سے اُن دل پھینک اور جذباتی لوگوں کی بھی نشاندہی کر دی ہے جو کہ آخر کار اپنی محبوبہ کی بجائے اپنی محبوبہ کی مرغی اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ اور خوب موج اُڑاتے ہیں۔ آج کے نئے مجنوں کی اس سے بہتر تصویر اور کیا ہو سکتی ہے۔
محبت کے کوئی بول نہیں بلکہ یہ تو محسوس کرنے کی چیز ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پیار کوئی بول نہیں پیار آواز نہیں
یہ تو خاموشی ہے سنتی ہے کہا کرتی ہے
یہ نہ بجھتی ہے نہ رکھتی ہے نہ ٹھہری ہے کہیں
نو ر کی بوند ہے صدیوں سے بہا کرتی ہے
یہ ایک احساس کا نام ہے اس لیے اظہار نہ بھی ہو انسان اس جذبے اور احساس کو دور سے محسوس کر لیتا ہے اس لیے تو ”خجستہ“ اور ”حامد “ کے درمیان آواز کا رشتہ ہونے کے باوجود ”حامد“ اور”خجستہ“ ایک دوسرے کی محبت اور جذبات سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں ۔
افسانہ ”مسکن “ ایک متوسط طبقے کے لوگوں کی ایک خوبصورت رومانوی کہانی ہے جس کو پڑھ کر حسرت کا یہ شعر باربار ذہن میں گونجتا ہے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
ہم کواب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
یہ کہانی دو نو عمر محبت کرنے والوں کی داستا ن ہے جو کہ محبت کرنے کے باوجود معاشرے کے بندھنوں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے کھل کر نہیں مل سکتے لیکن اس کے باوجود ان میں شدید قسم کے جذباتی لگائو کو بھی آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
”مسکن “ دراصل ہیرو کی رومانوی یادوں کا مجموعہ ہے اس کہانی کو پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کتنا بڑا عذاب ہے زندگی کی خوشگوار یادیں جب انسان کو یاد آتی ہیں تو ایک ایسا وقت آتا ہے کہ یہ ماضی انسان کو کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔ اور یوں ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن ا س کے بعد انسان کے پاس پچھتاوے کے احساس کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ہے اور جدائی کا المیہ اُس کے اندر کے گھائو کو وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی گہرا کر دیتا ہے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز وماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
افسانہ ”شب خون “ میں موجود خون تھوکنے کی کیفیت میں جان دینا ایک روایتی رومانوی حوالہ ہے جسے اردو شاعری میں بھی جگہ ملی ہے۔ جیسے جون ایلیا کا یہ شعر
تھوکتا ہوں جو لہو ، بوئے حنا آتی ہے
جس پہ مہندی تری پستی تھی وہی سل ہے مجھے
لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو افسانے کو پڑھ کر دنیا کی بے ثباتی اور وقتی ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ اور میر کا یہ شعر ذہن میں بار بار گردش کرتا ہے
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
افسانے میں موجود ٹی بی کی سینٹوریم میں ہمیں اپنی پوری دنیا نظر آتی ہے زندگی کتنی ناقابل اعتبار شے ہے جوآج ہے تو کل نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سینٹوریم کی طرح دنیا میں بھی ہر شخص کا اپنا ایک بیڈ ہے جو کہ اُسے ایک نہ ایک دن ضرور خالی کرنا پڑے گا۔ ”بھومکا صاحب “ کی طرح دنیا کا ہر انسان زندہ رہنا چاہتا ہے۔ جینا چاہتا ہے لیکن جب اُس کی موت آتی ہے تو اُس کے سامنے سب کچھ بے کار ہو جاتا ہے اور اُسے اپنے حصے کا بیڈ خالی کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اسی افسانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ موت کی کیفیت غالب ہونے کے باوجود پورے افسانے میں ایک رجائی کیفیت بھی نظر آتی ہے۔ ہرمریض کو پتہ ہے کہ اُسے مرنا ہے زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی ہر مریض جینا چاہتا ہے۔ ایک دو دن کی زندگی بھی یہ مریض خوشی سے گزارنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں رونے والا کوئی نہیں۔لیکن پھر بھی ان کی باتوں میں مایوسی نہیں جھلکتی ۔” شقو “کی مکالموں میں آخر میں طنز کی کیفیت صرف اُس کی مدافعت ختم ہونے کے بعد در آتی ہے جب اُس کی برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے۔
”رات بیت رہی ہے“ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں بھی قاری کو زندگی کی بے ثباتی کا احساس ضرور ہوتا ہے خاص طور پر ”پیٹر “ کی موت قاری کو ایک کرب ناک احساس سے دوچار کرتی ہے اور قاری کی نظر زندگی کی بے ثباتی پرآکر رک جاتی ہے ۔” پیٹر“ جو کہ کل تک اپنی محبوبہ کی باتیں کرتے نہیں تکتا تھا او ر ہمیشہ روشن مستقبل کے خواب دیکھتا تھا ۔ آخر کار جب اپنے ہوائی جہاز میں آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی وقتی ہے اور ہر ایک انسان کو یہاں سے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہے۔ یعنی ایک دو سانسیں اور پھر ہمیشہ کی جدائی
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
ان تمام موضوعات کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے بچوں کی نفسیات کا تجزیہ بھی کیا ہے کہ کس طرح خار ج کا ماحول بچوں کے حساس ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس حوالے سے افسانہ ”فہیم “ اپنی مثال آپ ہے ۔جس کو پڑھ کرہم محسوس کرتے ہیں کہ چھوٹے بچے بہت زیادہ حساس اور متجس ہوتے ہیں۔ اور اُن کا ذہن ہر معاملے میں سوالات اٹھاتا ہے۔ اور وہ ہر چیز کو تجسّس کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ہر واقعے کا بڑوں سے زیادہ اثر لیتے ہیں ۔ ایسی حالت میں اگر بچوں کو نظر انداز کیا جائے یا انہیں ٹوکا جائے تو اُن کے ذہن پربہت برا اثرپڑتا ہے ۔”فہیم “ کو بھی اپنے نظر انداز ہونے کا مکمل طور پر احساس ہے جس کاوہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ اشفاق احمد کے خیال میں بچوں کی اسی حساسیت کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔
افسانہ ”تلاش“ میں مصنف نے بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا ہے۔ معصوم محبت انسان کی سچی محبت ہوتی ہے خواہ وہ کسی سے بھی ہو کیونکہ اس عمر میں شعور پختہ نہیں ہوتا اورسود و زیاں کے پیمانے ذہن میں نہیں ہوتے ۔ اس لیے بچے جس کسی کو بھی چاہتے ہیں تو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ خواہ وہ انسان ہو یا جانور اُن سے محبت اُن کے ذہن پر کافی حد تک اثرانداز ہوتی ہے۔ اور اس طرح بچہ جدائی کا کرب کسی صور ت میں برداشت نہیں کر پاتا ۔
افسانہ” پناہیں “ بھی بچوں کی نفسیات کے حوالے سے ایک اہم افسا نہ ہے۔ جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچے نہایت ہی حساس ہوتے ہیں اور اپنے خارج کا اثر وہ بڑوں سے زیادہ لیتے ہیں۔ اور ایک معمولی سا واقعہ اُن کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ ”آصف “ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ معصوم بچہ اپنے والدین کے اختلافات کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی معصومیت کھو دیتا ہے۔ اور باپ کی مار اُس کے اندر اپنے باپ کا خوف پیدا کر دیتی ہے۔ جو کہ مرتے دم تک اُس کا پیچھا نہیں چھورتا اور” آصف “ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی معصومیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
یوں بچوں کو بے جاطور پر سزائیں دینا اُن کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے کافی حد تک نقصان دہ ہے۔ جس کا منفی اثر ”آصف“ کی زندگی پر آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح اشفاق احمد ہمارے بزرگوں کو ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی بقا کا واحد سہارا سمجھتے ہیں۔ افسانہ ”فہیم“ میں ”نانی “ کے کردار کے ذریعے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہماری مشرقی معاشرتی نظام میں ہمارے بزرگ ایک اہم پرزے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اور ان بزرگوںکاوجود ایک گھرانے میں کتنا اہم ہے۔ یہ بزرگ غیر محسوس طریقے سے اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مختلف کہانیوں کے ذریعے اچھی اچھی باتیں بچوں کے ذہنوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ جس سے بچوں کی مکمل ذہنی اور روحانی اور اخلاقی تربیت جاری رہتی ہے۔
یوں افسانہ ”بابا “ کا کردار ”بابا‘ ‘ بھی اس با ت کی غمازی کر تا ہے کہ ہمارے بزرگ جاہل ہونے کے باجود اپنی اچھی روایات اور عادات اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں اور اپنی نسل کی بقا ءکے لیے اپنی جان تک لڑا دیتے ہیں ۔ کیونکہ اُن کی نظر میں اُ ن کی ساری زندگی کا سرمایہ ا ن کا خاندان ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
فسادات کا موضوع اردو افسانے کا اہم موضوع رہا ہے اور ٧٤ کے دور کے اکثر افسانہ نگاروں کے ہاں ہمیں یہ موضوع نظر آتا ہے۔ جن میں سے بعض افسانہ نگار تو اُسی ہنگامی دور سے متاثر ہو کر لکھتے رہے اور اُن کے افسانے اُسی دور کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔ لیکن بعض لکھنے والوں نے فسادات کے حوالے سے لازوال افسانے تخلیق کیے ۔اُن میں اشفاق احمد بھی سرفہرست ہیں اُن کے افسانوی مجموعے میں ہمیں تقریباً ہر افسانے میں فسادات کا حوالہ کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اُن کا افسانہ ”سنگ دل “ ایک خوبصورت رومانوی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ فسادات کے حوالے سے ایک اہم افسانہ ہے جس کو پڑھ کر قاری کو احساس ہوتا ہے کہ فسادات نے انسانوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ۔ اُس دور میں کیا کچھ ہوا ۔ کتنے بے گناہ لوگ مارے گئے، کتنے سہاگ اجڑے کتنے بیٹے مرے کتنی عصمتیں لٹیں ۔ اس افسانے میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کو تقسیم کے بعد اغوا ءکرکے نجانے کن کن حالات سے دوچار کیا گیا ۔اور اُنہیں کتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اُ ن کا جنسی استحصال ہوا۔ ”حسنا“ تو خوش قسمت تھی جو کہ کسی نہ کسی طرح اس عذاب سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی لیکن نجانے اُس جیسی کتنی لڑکیاں اس عذاب میں جل کر راکھ ہو گئیں ۔
اسی افسانے میں اشفاق احمد نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ تقسیم، ہجرت اور فسادات کا اصل محرک مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھا ۔ اس دور میں لوگوں کو جس طرح سے قتل کیا گیا جس طریقے سے اُن کو لوٹا گیا اس سے ایسا لگتا تھا کہ انسان انسانیت کے درجے سے اتر کر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس دور میں ”پمی“ جیسے کردار بھی پیدا ہوئے۔ ”پمی “ ہندو مذہب سے تعلق کے باوجود مسلمان عورتوں کی عزت بچانے میں اپنی جان ، اور محبت کی بازی لگادیتی ہے ۔اس لیے کہ اُسے انسانیت سے پیار ہے اُس کے اندر کا انسان ابھی زندہ ہے اور وہ صرف انسانیت کی عظمت کو ہی اپنا مذہب تصور کرتی ہے۔ جن لوگوں کواپنے مسلمان بھائیوں نے فراموش کر دیا ہے۔ ”پمی “ اُن کے لیے بہت کچھ کرتی ہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب سے جدا ہو کر اُن کے لیے قربانی پیش کر تی ہے۔ ان سب باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ فسادات کا محرک مذہب نہیں بلکہ اس کے محرکات کچھ اور تھے جن کو صرف تیز بین نظریں ہی جان سکتی ہیں۔
”سنگ دل “ میں ”امر “ کے مکالموں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں حالات نے ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ورنہ جو لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹے رہے اور ہندوستان میں ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی ۔ اُن میں سیاسی طور پر اتنا زہر اگلا گیا کہ ہندو اور مسلم کے درمیان ایک بڑ ی دیوار حائل ہو گئی اور اس زہر سے ”امر“ جیسے معصوم بچے بھی محفوظ نہ رہ سکے ۔
اسی افسانے میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ظلم و جبر کے واقعات صرف مسلمانوں کے ساتھ پیش نہیں آئے بلکہ نجانے کتنی ہندولڑکیاں پاکستان میں رہ گئیں اُن کے ساتھ بھی وہی ہوا جو مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان میں ہوا۔ اسی لیے ”پمی “ جدا ہوتے وقت کیپٹن سے کہتی ہے کہ وہاں ”حسنا“ جیسے بہت سے پھول رہ گئے ہیں اُن کو یہاں لانے کی کوشش ضرور کرنا ۔
افسانہ ”بابا“ کا اختتامی حصہ ہمارے سامنے فسادات کی ایک بھیانک تصویر پیش کرتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں ۔ اور کتنے ہی بچوں اور بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹاگیا ۔ ہندووں بلوایوں کے نعرے اور مسلمانوں کی بے بسی دیکھ کر قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تقسیم کے اس عمل میں کتنے لوگوں کا خون بہایا گیااور کتنی بے گناہ عورتیں آزادی کے لیے قربان ہو گئیں۔ یوں ان مناظر کو دیکھ کر اُس دور میں انسان کے اندر وحشی پن اور بربریت سے پردہ اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔
اشفاق احمد کے دوسرے افسانوں ”تلاش “ ، ” پناہیں“، ” مسکن“ اور ”امی “ ، ایسی کہانیاں ہیں جن میں کسی نہ کسی حوالے سے فسادات کا ذکر موجود ہے۔ افسانہ ”پناہیں“ میں” آصف“ اور اُس کے باپ کے درمیان فسادات کی وجہ سے جدائی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فسادات نے کتنے اپنوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تباہ برباد کرکے رکھ دیا ۔
جنگ عظیم کو بھی اردو افسانے میں بہت سے مصنفین نے جگہ دی ہے اور اپنے دور کا یہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔ افسانہ ”رات بیت رہی ہے“ دوسری جنگ عظیم کی ایک مکمل تصویر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے اس افسانے کے ذریعے مصنف غیر محسوس طریقے سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی اور بربادی لاتی ہے۔ یہ جنگ ہی ہے جس نے کتنوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جداکر دیا جن کی” پیٹر“ کی طرح قبر بھی موجود نہیں ہے۔ اگر دنیا میں یہ بھیانک جنگیں نہ ہوتیں تو نجانے کتنے پیٹر آ ج اپنی ”مارگریٹ “ کے ساتھ ہوتے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
محبت اشفاق احمد کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے معاشرتی ، سماجی موضوعات پر قلم نہیں اُٹھایا ۔ اُ ن کے افسانوں میں معاشرے میں موجود منافقانہ رویے معاشرتی مسائل ان کی وجوہات بکثرت نظر آتے ہیں ۔ اُن کا افسانہ ”امی “ اس حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جن بچوں کے ماں باپ دوسری شادی کر لیتے ہیں اُن کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُن کی ذہنی اور جسمانی نشونما کتنی متاثر ہوتی ہے۔ اور یوں اس کے بعد ”مسعود“ جیسے کردار جنم لیتے ہیں ۔ شاید مصنف اس حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے کہ پرائے بچے کبھی اپنے نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے جب چچا کا اپنا بیٹا” مسعود“ کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے تو اُسے باپ کی بھرپور توجہ اور محبت میسر ہوتی ہے جبکہ ”مسعود “ کو مکمل طور پر نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔
”امی “ کا کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دوسری شادی کے بغیر بھی عورت اپنے بچوں کی مکمل اور کامیاب پرورش کر سکتی ہے اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔اس کے علاوہ اس کردار کے ذریعے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کو اپنے ماں باپ کی مکمل توجہ اور محبت میسر رہتی ہے وہ ہمیشہ معاشرے کے کامیاب اور اچھے فرد ثابت ہوتے ہیںجبکہگھر کی طرف سے ٹھکرائے جانے والے افراد معاشرے میں کسی صورت میں کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے کیونکہ نفسیاتی طورپر ایسے بچے بڑے ہو کر بھی احساس ِ کمتری کا شکارہتے ہیں اور اس احساس کمتری کا ازالہ کرنے کے لیے وہ مختلف قسم کی برائیوں اور جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی کمزوریوں کابدلہ معاشرے سے لینا چاہتے ہیں۔
”امی “ کے کردار میں اشفاق احمد نے عورت کے اندر پائے جانے والی ایک مکمل ماں کی تصویر دکھائی ہے جو کہ نہ صرف اپنے بچوں سے محبت رکھتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اس کے اندر ممتا اور محبت کا جذبہ موجود ہے۔ اس لیے وہ ”مسعود“ کو اپنے بچوں جیسا پیار کرتی ہے اور اُس کی ہر ضرورت کاخیال رکھتی ہے۔
اسی طرح اس افسانے میں مصنف نے جوئے کی لعنت پر بھی بحث کی ہے کہ کس طرح جوا کھیلنے والا شخص آخر کار اتنا گر جاتا ہے کہ اس کی نظر میں جذبوں اور رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور پھر ”مسعود“ امی جیسی پیار کرنے والی عورت سے بھی چوری کرنے اور جھوٹ بولنے سے نہیں ہچکچاتا ۔ اسی جوئے کی لعنت اور غلط سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھے کی وجہ سے آخر کار” مسعود“ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
افسانہ ”امی “ کا سب سے بڑا فکری پیغام یہ ہے کہ انسانیت کبھی نہیں مرتی ۔ معاشرہ خواہ انسان کے ساتھ کیسا ہی سلوک کرے خواہ وہ برا ہی کیوں نہ بن جائے لیکن اس کے اندر کا انسان یعنی اس کا ضمیر اُس کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں چھپا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ” مسعود“ ایک چور ہے جوا کھیلتا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے امی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی جس کی وجہ سے وہ رقم کا بندوبست کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ موت اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے اور و ہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن وہ” امی“ تک رقم پہنچانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔یعنی ”مسعود“ خود برا نہیں بلکہ اُسے معاشرے اور حالات نے برا بنا دیا ہے۔
یوں اشفاق احمد نے افسانہ ”فہیم “ کے ذریعے درمیانے طبقے میں رہنے والے بچوں کی زندگی اور حالت زار پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ درمیانے طبقے میں رہنے والے بچوں کے کیا مسائل ہیں اور کن مشکلات میں رہتے ہوئے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ رات کو ایک دوسرے کے ساتھ سوتے ہیں اور مناسب کمبل اور چارپائی نہ ہونے کے سبب سردی سے ٹھٹھرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی وہ اس سردی کو برداشت کرتے ہیں اور لڑ جھگڑ کر سو جاتے ہیں کیوں کہ ان کے گھر میں اضافی رضائی اور چارپائی لانے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں ۔
افسانہ ”پناہیں “ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ صرف اپنی انائوں کے غلام ہوتے ہیں وہ اپنے رویوں سے نہ صرف خود نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ دوسرے بھی ان سے حد درجہ متاثر ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں میں برداشت کا مادہ موجود نہ ہو وہ لوگ کسی بھی خاندان کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہوتے ہیںکیوں ایسے لوگوں کو اپنے خاندان کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر میں ان کی جیت ہی سب سے اہم ہوتی ہے اور اسی لیے ”آصف “ کے ماں باپ اپنی انائوں کی خاطر اپنے بچوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
اشفاق احمد کے خیال میں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔ان دونوں پہیوں کو ساتھ ساتھ چلانے کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے گھر کی فضاءمثالی بنتی ہے۔ اور وہ گھر جنت سے زیادہ پرسکون ہوتا ہے۔لیکن جن گھروں میں سمجھوتے کی کمی ہو اور میاں بیوی دونوں اپنی من مانی چاہتے ہیں اور ہر کوئی اپنی جیت کا دعویدار ہو تو ایسے گھرانوں کی فضاءدوزخ سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اور ایسے لوگ کبھی کامیاب ماں باپ نہیں بن سکتےبلکہ اُن کی حالت” آصف“ کے ماں باپ جیسی ہو جاتی ہے جو کہ صرف زبردستی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ باقی ان کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا جاتا ۔ یہاں تک کہ اولاد بھی اُن کے درمیان کشیدہ فضاءکو کم کرنے میں ناکام رہتیہے ۔
اس افسانے کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزر جائے تو اس کا پچھتاوا اس کو واپس لانے سے قاصر رہتاہے ۔ ”آصف“ کا باپ اگرچہ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہے اور فسادات میں ”آصف“ کی جدائی کے بعد ایک کشمکش کی کیفیت کا شکار نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ وقت کو پیچھے نہیں لے جاسکتا ۔ کیونکہ وقت ایک بے رحم درندہ ہے جس کی زد میں ہم سب لوگ آئے ہوئے ہیں۔ وقت گزر جائے تو کبھی مڑ کر نہیں دیکھتا بس آگے ہی آگے اپنا سفر طے کرتا ہے اور ہم صرف اپنی غلطیوں پر ہاتھ ملتے ہوئے رہ جاتے ہیں
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھرہاتھ آتا نہیں
افسانہ ”بابا “ میں مادہ پرست سوچ کا مذاق اُڑایا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح مادہ پرستی انسان کو فطرت اور محبت سے دور کر دیتی ہے۔ ”ایلن “ اپنی مادی سوچ کی بناءپر اپنے محبت سے بچھڑ جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اُس کا شوہر زیادہ سے زیادہ کمائے کیونکہ کھیتی باڑی میں اُس کا مستقبل محفوظ نہیں جس کی وجہ سے وہ ”وحید “ کو باہر جانے کا مشورہ دیتی ہے اور یہی مادہ پرست سوچ اُس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب سے جدا کرکے آنسو بہانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اسی کہانی میں معاشرے کے بے رحم اور منافقانہ رویوں سے بھی پردہ اُٹھایا گیا ہے ۔ ”بابا“ اپنی بہو کے لیے سب لوگوں کے سامنے گڑگڑاتا ہے ہر قسم کی منتیں کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فیس کا لالچ دیتا ہے لیکن کوئی بھی ڈاکٹر یا نرس اُس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتی ۔ کیونکہ اُنھیں کسی دوسرے کی زندگی سے کیا غرض جب وہ خود آرام سے ہیں۔ اور نرس کا یہ جملہ تو پورے پیرا میڈیکل سٹاف کے منہ پر ایک طمانچہ محسوس ہوتا ہے جب وہ” بابا“ سے کہتی ہے کہ اپنی بہو کو دم کردو تو وہ ٹھیک ہو جائے گی یعنی جن کو فرشتہ یا مسیحا کہاجاتا ہے وہ قصائی بن جائیں تو ایسے معاشرے میں عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ۔
”بندرا بن کی کنج گلی میں“ میں ”نمدار “ کا کردار بھی ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ چلنے کے لیے اپنے آپ کوبدل کر رکھ دیتے ہیں اور اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں۔ ”نمدار“ کو چونکہ کالج میں پڑھنا ہے اور اپنا سٹیٹس برقرار رکھنا ہے اس لیے وہ اپنی اصلیت دوسروں پر ظاہر کرکے اپنی سبکی نہیں کرانا چاہتا۔ یہ بھی ہمارے غریب اور درمیانے طبقے کی ستم ظریفی ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے کتنے پاپٹر بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ مداری کی طرح اپنی اصلیت کو چھپا کر اُن کی صفوں میں شامل ہو سکیں۔
افسانہ ”شب خون “ میں مصنف معاشرے کا اصل او ر بھیانک چہرہ ہمارے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اُن کے خیال میں جان ہے تو جہان ہے ۔”شقو “ جیسا قابل ، خوبصورت نوجوان جب بیمار ہوتا ہے تو اپنے بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور وہ ”شقو“ جو سب کو دل و جان سے عزیز ہوتا ہے بیماری کے بعد دنیا اور گھر والوں کے لیے بوجھ بن جاتا ہے ۔ یعنی غیرصحت مند انسان سب کے لیے بوجھ ہے جس کو سب لوگ جلد از جلد اتار پھینکنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
اس افسا نے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر محبت کرنے والے خونی رشتے دار بھی انسان کا برا وقت آنے پر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ خواہ اپنے بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مادہ پرستی کے اس دور میں رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انسان جب سے مشین بنا ہے جذبات خود بخود ختم ہو رہے ہیں۔ اس لیے جب یہ مشین کسی کام کی نہیں رہتی تو اُسے ایک بے کار چیز سمجھ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر کوئی اس کی جائیداد پر ہاتھ صاف کرنے کی سوچتا ہے اور کوئی اُس سے چھٹکارا پاناچاہتا ہے۔ افسانے میں ”شقو “ کے رشتہ داروں کا رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مصیبت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
لیکن معاشرہ ابھی تک مکمل طورپر زوال پذیر نہیں ہوا اس میں ”بیٹرس“ جیسے کردار موجود ہیں ۔ اس لیے غیر ہونے کے باوجود وہ ”شقو“ کو اپنوں سے زیادہ چاہتی ہے۔ اسی طرح معصوم ”خالد“ جس کا ذہن ابھی مکمل طورپر پروان نہیں چڑھا اور جس نے معاشرے کی خود غرض سوچ کو نہیں اپنایا ”شقو“ سے اُسی طرح محبت کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا اور اُس کی صحت کے لیے دعا گو ہے۔
No comments:
Post a Comment
You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.