کہتے ہو مجھ سے عشق کا افسانہ چاہیئے
دل کو اپنے لُٹا کے بیٹھا ہوں
غم کو اپنا بنا کے بیٹھا ہوں
کیا خبر مُسکرانے والوں کو
زخم کیا کیا چُھپا کے بیٹھا ہوں
کہتے ہو مجھ سے عشق کا افسانہ چاہیئے
رُسوائی ہو گی آپ کو شرمانہ چاہیئے
خوددار اتنی فطرتِ رندانہ چاہیئے
ساقی بھی خود کہے کوئی پیمانہ چاہیئے
مٹی خراب کرتے ہو کیوں بیمارِ ہجر کی
جو تم پہ مر گیا اُسے دفنانہ چاہیئے
آنکھوں میں دم رُکا ہے کسی کے لئے ضرور
تھک گئے ہم
کرتے کرتے انتظار
اک قیامت تیرا آنا ہو گیا
قاصد اگر وہ پوچھیں تو کہہ دیجیئے یہ حال
دم ہے لبوں پہ آنکھیں ہیں در پر لگی ہوئی
قاصد چلا تو ہے خبرِ یار کے لئے
اتنا رہے خیال کہ آنکھوں میں جان ہے
شبِ وعدہ یہ رہا کرتی ہیں باتیں دل سے
کہ یار آتا ہے پہلے کہ قضا آتی ہے
باغوں میں جھومتی ہوئی آئی بہار ہے
آ جاوؑ کہ زندگی کا کہاں اعتبار ہے
آنکھوں میں دم رکا ہے کسی کے لئے ضرور
ورنہ مریضِ ہجر کو مر جانا چاہیئے
وعدہ اندھیری رات میں آنے کا تھا قمر
اب چاند چُھپ گیا انہیں آ جانا چاہیئے ۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment
You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.