دانش ور اشفاق احمد کو مریدکے سے کوئی خاص نسبت تھی یا نہیں، صحیح طرح سےمعلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ ایک سے زائد افراد کی جانب سےاتناضرور انکشاف کیا گیا ہے کہ اپنی وفات سے چار سال قبل وہ مین بازارراوی ریان میں واقع ایک دکان میں چار سےپانچ مرتبہ تشریف لائے۔ یہاں ان کا مقصد درویش صفت حکیم عبد الواحد سے ملاقات تھا۔ بانو قدسیہ بھی ایک بار اشفاق صاحب کے علاوہ یہاں تشریف لائیں۔ مریدکے ٹائمز نے حکیم عبدالواحد سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے مذکورہ شخصیات کی اپنے ہاں اؔمد کی تصدیق کی بلکہ اس حوالے سے اپنے تاثرات بھی شیئر کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ”اشفاق احمد بغرضِ علاج میرے پاس اؔئے۔ میں نے انہیں پہچانا نہ ہی انہوں نے اپنے بارے میں کچھ بتایا۔ میں نے کبھی ٹی وی دیکھا نہ انہیں جانتا تھا۔ دکان پر موجود لوگوں نے فی الفور انہیں پہچان لیا۔ یہ وہ دن تھے جب ٹی وی پر ان کا پروگرام “زاویہ” کے نام سے چل رہا تھا۔ان کے پتے میں پتھری اور کینسرتھا۔ساتھ ہی ساتھ گردوں ااور دل کے معاملات بھی کافی بگڑے ہوئے تھے۔ دل اورگردوں کے افعال میں علاج سے کافی بہتری اؔئی۔کچھ عرصہ علاج کے بعد انہوں نے اپنے امریکا پلٹ بیٹے کے اصرار پر پتے کا اؔپریشن کرایا تو مجھے ہاسپٹل سے افاقہ نہ ہونے سے متعلق فون کیا۔جس پر میرا جواب تھا کہ اب اؔپ نے اؔپریشن ہی کرا ڈالا ہے اس لیے کچھ نہیں ہو سکتا۔ حکیم عبدالواحد کا کہنا ہے کہ اشفاق احمد کی وفات سے کچھ عرصہ قبل میں ملاقات کے لیے ماڈل ٹائون ان کے گھر گیا تو میرے ہاتھ میں مریدکے سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی اور شاعر کی پنجابی نظموں کی کتاب”سولاں تے تریل” تھی ۔اشفاق صاحب نے فرمائش کر کے کتاب مجھ سے لی ۔اگلی بار ان سے ملنے ماڈل ٹائون پہنچا تو کہنے لگے کہ تم جو کتاب دے کر گئے تھے اسے میں نے پڑھا ہے ۔اس کے مصنف کے خیالات قابلِ تعریف ہیں۔اس نوجوان سے میں ملنا چاہوں گا مگرپہلے ذرا ٹھیک ہو جائوں، تاہم اس ملاقات کی نوبت اس لیے نہ اؔ سکی کہ اشفاق صاحب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ اؔریوویدک حکیم عبدالواحد نے مزید بتایا کہ ایک بار کرنل مکرم اور اشفاق صاحب کے ساتھ مل کرمیں نے کتابوں کی شاپنگ بھی کی۔انہوں نے جڑی بوٹیوں سے متعلق کچھ کتابیں مجھے تحفہ میں دیں۔اشفاق صاحب دورانِ ملاقات ایک بات ضرور دہراتے۔دیکھوعبدالواحد !نہ ہم تمہیں حکیم سمجھتے ہیں نہ تم ہمیں ادیب سمجھو۔بس یہ کہ قدرت نے ہمیں ملانا چاہا اور ہم مل گئے۔جب مریدکے ٹائمز نے حکیم عبد الواحد سے بانو اؔپااوراشفاق احمددونوں میاں بیوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا”کہ اشفاق احمد بہت اچھے انسان تھے مگر میرے نزدیک علم اور خداترسی میں بانو آٓپا سے بڑھ کر کوئی اور نہیں۔
اشفاق احمد
دانش ور اشفاق احمد کو مریدکے سے کوئی خاص نسبت تھی یا نہیں، صحیح طرح سےمعلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ ایک سے زائد افراد کی جانب سےاتناضرور انکشاف کیا گیا ہے کہ اپنی وفات سے چار سال قبل وہ مین بازارراوی ریان میں واقع ایک دکان میں چار سےپانچ مرتبہ تشریف لائے۔ یہاں ان کا مقصد درویش صفت حکیم عبد الواحد سے ملاقات تھا۔ بانو قدسیہ بھی ایک بار اشفاق صاحب کے علاوہ یہاں تشریف لائیں۔ مریدکے ٹائمز نے حکیم عبدالواحد سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے مذکورہ شخصیات کی اپنے ہاں اؔمد کی تصدیق کی بلکہ اس حوالے سے اپنے تاثرات بھی شیئر کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ”اشفاق احمد بغرضِ علاج میرے پاس اؔئے۔ میں نے انہیں پہچانا نہ ہی انہوں نے اپنے بارے میں کچھ بتایا۔ میں نے کبھی ٹی وی دیکھا نہ انہیں جانتا تھا۔ دکان پر موجود لوگوں نے فی الفور انہیں پہچان لیا۔ یہ وہ دن تھے جب ٹی وی پر ان کا پروگرام “زاویہ” کے نام سے چل رہا تھا۔ان کے پتے میں پتھری اور کینسرتھا۔ساتھ ہی ساتھ گردوں ااور دل کے معاملات بھی کافی بگڑے ہوئے تھے۔ دل اورگردوں کے افعال میں علاج سے کافی بہتری اؔئی۔کچھ عرصہ علاج کے بعد انہوں نے اپنے امریکا پلٹ بیٹے کے اصرار پر پتے کا اؔپریشن کرایا تو مجھے ہاسپٹل سے افاقہ نہ ہونے سے متعلق فون کیا۔جس پر میرا جواب تھا کہ اب اؔپ نے اؔپریشن ہی کرا ڈالا ہے اس لیے کچھ نہیں ہو سکتا۔ حکیم عبدالواحد کا کہنا ہے کہ اشفاق احمد کی وفات سے کچھ عرصہ قبل میں ملاقات کے لیے ماڈل ٹائون ان کے گھر گیا تو میرے ہاتھ میں مریدکے سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی اور شاعر کی پنجابی نظموں کی کتاب”سولاں تے تریل” تھی ۔اشفاق صاحب نے فرمائش کر کے کتاب مجھ سے لی ۔اگلی بار ان سے ملنے ماڈل ٹائون پہنچا تو کہنے لگے کہ تم جو کتاب دے کر گئے تھے اسے میں نے پڑھا ہے ۔اس کے مصنف کے خیالات قابلِ تعریف ہیں۔اس نوجوان سے میں ملنا چاہوں گا مگرپہلے ذرا ٹھیک ہو جائوں، تاہم اس ملاقات کی نوبت اس لیے نہ اؔ سکی کہ اشفاق صاحب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ اؔریوویدک حکیم عبدالواحد نے مزید بتایا کہ ایک بار کرنل مکرم اور اشفاق صاحب کے ساتھ مل کرمیں نے کتابوں کی شاپنگ بھی کی۔انہوں نے جڑی بوٹیوں سے متعلق کچھ کتابیں مجھے تحفہ میں دیں۔اشفاق صاحب دورانِ ملاقات ایک بات ضرور دہراتے۔دیکھوعبدالواحد !نہ ہم تمہیں حکیم سمجھتے ہیں نہ تم ہمیں ادیب سمجھو۔بس یہ کہ قدرت نے ہمیں ملانا چاہا اور ہم مل گئے۔جب مریدکے ٹائمز نے حکیم عبد الواحد سے بانو اؔپااوراشفاق احمددونوں میاں بیوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا”کہ اشفاق احمد بہت اچھے انسان تھے مگر میرے نزدیک علم اور خداترسی میں بانو آٓپا سے بڑھ کر کوئی اور نہیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.