اشفاق احمد

سہیل کی سالگرہ(افسانہ)۔ ۔ ۔ ۔ اشفاق احمد

سہیل کی سالگرہ


بڑی مارکیٹ کے سامنے، سڑک کے دونوں طرف بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگوں میں سے وہ یوسف کے سامنے آ کر رکا اور بولا ” بارہ چودہ کے کمرے پر ایملشن کروانا ہے ۔ گراؤنڈ تیار ہے، مال موجود ہے، شام تک کر لو گے ؟”
یو سف نے مسکرا کر جواب دیا ” کیوں نہیں سر، پندرہ برس سے یہی کام کر رہا ہوں، میرا باپ مشہور سفیدی والا تھا، ہمارا خاندانی پیشہ ہے، کروں گا کیوں نہیں ۔”
ابرار صاحب نے کہا ” چالیس روپے ملیں گے ۔”
یو سف نے کہا ” آپ چالیس بھی نہ دیں، کام ملنا چاہئے اور ہاتھ کی صفائی دیکھنی چاہئے، باقی اس دنیا میں کیا رکھا ہے سر جی ___ !”
سر جی جب اس کو اپنی کار میں سوار کرانے لگے تو یوسف کا کلیجہ کانپ گیا۔ ایسی نئی اور خوبصورت کار اس نے نہ تو کبھی سڑک پر دیکھی تھی اور نہ ہی اس کو خواب میں نظر آئی تھی، حالانکہ یوسف جب بھی دیکھتا تھا، کار ہی کے خواب دیکھتا تھا۔ اور یہ شاید اس کے ماموں کی وجہ سے تھا جو کافی مشہور ڈینٹر تھا اور جس کے پاس بہت سی کاریں آتی تھیں ۔
ابرار صاحب کی کار میں بیٹھتے ہو ئے یوسف نے اپنا ڈبہ بچے کی طرح سینے سے چمٹا لیا اور اس کے اندر کے دونوں برش با لوں کے رخ کھڑے کر دئیے ۔ موٹر میں احتیاط کے ساتھ بیٹھنا تو بڑے بڑوں کو نہیں آتا، یوسف بے چارے کا تو یہ صرف چوتھا موقع تھا کہ وہ کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر اپنا آپ سنبھال کے رکھے اور اپنے گندے ڈول کو سوائے اپنے کپڑوں کے یا اپنے وجود کے اور کسی شے سے لگنے نہ دے ۔
گاڑی سٹارٹ کر کے جب ابرار صاحب نے بٹن دبا کر شیشے اوپر چڑھائے تو انہوں نے مسکرا کر پو چھا ” پہلے بھی کبھی اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھے ہو ؟”
یوسف نے کہا ” نہیں سر جی ۔” اور پھر شر مندہ سا ہو گیا ۔
کمرہ بارہ چودہ سے ذرا بڑا تھا اوراس کی گراؤنڈ اتنی تیار نہ تھی جتنی یوسف کو بتائی گئی تھی ۔ برش کی کھینچ سے دیواروں پر کہیں کہیں لس آتی تھی اور یوسف کو ریگ مال لگا کر وہ جگہ پھر سے تیار کرنی پڑی تھی ۔
سورج غروب ہونے کے بعد جب یو سف نے کمرہ تیار کر دیا تو بیگم صاحب اس کے کام کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ابرار صاحب کو بھی اس کی آرٹسٹک صلاحیتوں پر کچھ فخر سا ہوا ۔ انہوں نے چالیس روپے یوسف کو تھما کر بڑے خوشگوار انداز میں ” تھینک یو ” کہا اور اس کا کندھا تھپک کر بو لے ” اسی جگہ بیٹھتے ہو ناں ہر روز آ کر ؟” یو سف نے کہا …….. ” بیٹھتا تو اسی جگہ ہوں سر جی، مگر مجھے واپس چھوڑنے کا کوئی بند و بست کرا دیجئے ۔ میرا گھر اس جگہ سے بہت ہی دور ہے ۔”
ابرار صاحب نے کہا ” اگر تم تیز تیز قدم اٹھا تے نہر کا پل کراس کر کے دائیں بائیں دیکھے بغیر بڑے ٹاور تک پہنچ جاؤ تو تمہیں آدھ گھنٹے میں بس سٹاپ مل جائے گا ” ۔
یوسف نے کہا ” آج میرے بیٹے کی سالگرہ ہے سر جی اور اس نے گھر پر اپنے دوستوں کو بلایا ہوا ہے ۔ اگر میں وقت پر نہ پہنچا تو اس کا فنکشن رہ جائے گا ۔ مجھے ابھی راستے میں کیک بھی خریدنا ہے ۔”
بیگم ابرار نے انگریزی میں اپنے شوہر سے کہا ” ہمارا کلچرل پیٹرن کتنی تیزی سے بدل رہا ہے ابرار ! اب مزدور لوگ بھی کیک کاٹ کر اپنے بچوں کی سا لگرہیں منانے لگے ہیں ۔ کس قدر خوشی کی بات ہے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ ترقی کر رہے ہیں ____ ! “
ابرار نے کہا ” اس وقت نہ تو کوئی ڈرائیور ہے اور نہ ہی چھو ٹے صاحب گھر پر ہیں اور نہ ہی میں شام کے بعد گاڑی چلا سکتا ہوں ۔ اس لئے تم کو ایسے ہی جانا پڑے گا ۔”
بیگم ابرار نے پھر انگریزی میں کہا کہ ” ابرار ! واپس چھو ڑ کے آنا تو ہماری ذمہ داری نہیں ہے ناں ” تو ابرار نے جوابا ً کہا ” سویٹ ہارٹ ! دراصل ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اس کو ہینڈسم معاوضہ ادا کر دیا گیا ہے، پسینہ سوکھنے سے پہلے ۔ “
جب یوسف گھر پہنچا تو رات کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ بازار میں ابھی کچھ لو گ دوکانوں کے سامنے بیٹھے تھے، لیکن اس کے گھر کی گلی بالکل سنسان ہو چکی تھی _____ جب یو سف نے ڈرتے ڈرتے دروازے پر دستک دی تو اس نے کیک کا ڈبہ آگے کر لیا تا کہ سہیل ڈبہ دیکھ کر اسے کچھ کہے نا ۔ رضیہ نے دروازہ کھولتے ہی کہا ” ابھی روتے روتے سویا ہے ۔”
یوسف نے کہا ۔” میں تو سارا راستہ بھاگتا آیا ہوں ۔نہ کوئی بس نہ لاری ۔ کام ہی اتنی دور ملا۔ رکشے کے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ کیک تو بہت ہی مہنگا ہوتا ہے رضیہ ! “
رضیہ نے کہا ” اب یہ کیک کس کام کا ! سہیل بے چارے کی جو بے عزتی ہونی تھی، وہ تو ہو گئی ۔”
” اس کے دوست آئے تھے ؟ ” یوسف نے پوچھا ۔
” کیوں نہیں آئے تھے ۔ سارے ہی تھے ۔ نو دس __اور جب انہوں نے تالیاں بجائیں تو سہیل میرے ساتھ چمٹ کر زور زور سے رونے لگا ۔ میں نے کہا ، ہائے ہائے ! کوئی اپنی سالگرہ کے دن بھی روتا ہے ۔ وہ مجھے دھکا دے کر اندر کوٹھڑی میں بھا گ گیا اور اندرسے دروازہ بند کر لیا ۔”
” اگر مجھے دیر ہو گئی تھی تو تو ہی کچھ کر لیتی رضیہ ۔”
” لو میرے پاس کون سے پونڈ رکھے تھے جو میں کوئی بند و بست کر لیتی ! “
” کسی سے ادھار سدھار ہی لے لیتی ۔”
” اسی طرح سے تو کیا میں نے ۔” رضیہ نے فخر سے کہا ” جب سارے لڑکے تپائی کے گرد کھڑے ہو گئے تو اللہ نے میرے دماغ میں اپنے فضل سے ایک بات ڈال دی ۔ میں کمے کاندروں کی دوکان سے ایک ڈبل روٹی ادھار لے آئی ۔ چھری تو سہیل صبح سے دھو کے، صا ف کر کے، چمکا کے بیٹھا تھا ۔ “
” بڑی ڈبل روٹی لانی تھی ۔ ” یوسف نے بات کاٹ کر کہا ۔
” ہا ! تو میں کوئی بو وقوف ہوں جو چھوٹی لاتی ، بڑی لائی تھی ۔ سا ڑھے چار روپے والی ____ پر اس کو پتہ نہیں کیا ہوا ۔ جب میں نے ڈبل روٹی تپائی پر رکھ کر اسے کاٹنے کو کہا تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔ اس کے دوست اللہ رکھے تالیاں بجائی جائیں اور یہ روئے جائے ۔ الو کہیں کا ! “
” تو پھر کس نے کاٹی ڈبل روٹی ؟”
” میں نے کاٹی ، اور کس نے کاٹنی تھی ۔ سب نے دو دو سلائس کھائے بڑے شوق سے …… اور …….. “
” اور سہیل نے ؟”
” یہ تو بھاگ کر اندر گھس گیا کوٹھڑی میں ۔ اور اندر سے دروازہ بند کر لیا ____ میں مامے رفیق کو بلا کر لا ئی تو انہوں نے آ کر دروازہ کھلوایا _____ سچی بڑا ہی رویا ساری شام ____ ٹھہر میں تیرے لئے لاون گرم کر دوں ۔”
” رہنے دے ! دفع کر ! ” یو سف نے چڑ کر کہا ” میری بھوک ہی ماری گئی ہے ۔”
” ہا ____ تیری بھوک کیوں ماری گئی یوسف ! صبح اٹھ کر جب کیک دیکھے گا تو آپی سب کچھ بھول جائے گا ۔”
یوسف اسی طرح منہ تھتھائے دروازہ کھول کر چپ چاپ باہر گلی میں نکل گیا اور تین سوئے ہوئے کتوں کے آگے کیک رکھکر بولا ” لو کتو کھاؤ ۔ موج اڑاؤ ۔”
پھر اس نے ہر کتے کی طرف اشارہ کر کے تین مرتبہ زور زور سے کہا ۔:
” کتا ! کتا !! کتا !!!”
۔اور صبح پھر کام پر جانے کے لئے گھر واپس آ کر سو گیا

No comments:

Post a Comment

You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.