پلاوؑ ساقی پلاوؑ کہ رات باقی ہے

پلاوؑ ساقی پلاوؑ کہ رات باقی ہے

تو ہے ساقیؑ زمانہ تیری زات ہے یگانہ
مجھے ہوش بھی نہ رہے کوئی ایسا جام دیدے

دیر و حرم میں چل دیے دیر و حرم کے لوگ
جو رند تھے وہ تیری پناہوں میں آ گئے

بادہِ عشق پلاوؑ تو کوئی بات بنے
تشنگی میری بجھاوؑ تو کوئی بات بنے

بادل کی طرح جھوم کے لہرا کے پئیں گے
ساقی تیرے مئے خانے پہ یم جا کے پئیں گے

دیکھیں گے کہ آتا ہے کدھر سے غمِ دنیا
ساقی تجھے ہم سامنے بٹھلا کے پئیں گے

پلاوؑ ساقی پلاوؑ کہ رات باقی ہے
چلاوؑ دور چلاوؑ کہ رات باقی ہے

رہے نہ تشنگی دل کی کرم یہ ہو جائے
نظر نظر سے ملاوؑ کہ رات باقی ہے

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند
مجھکو تیری نگاہ کا الزام چاہیئے

ساقیا مجھکو تیری مست نگاہوں کی قسم
تو نے  بے بادہ مجھے مست بنا رکھا ہے

ہوں جو دس بیس شرابی تو وہ توبہ کر لیں
شہر کا شہر ہے ڈوبا ہوا مئے خانے میں

ہائے یہ زلفِ پریشان دیکھ کر میں چھلکتا جوم کیسے چھوڑ دوں
یا تو اس کالی گھٹا کو روک لو یا اجازت دو کہ توبہ توڑ دوں

سارا جہاں کرے گا میری مئے کشی پہ رشک
تیری حسیں نگاہ اگر جام بن گئی

تیری نظروں کی حقیقت کوئی مجھ سے پوچھے
آنکھ کی آنکھ ہے پیمانے کا پیمانہ

دیکھ لو تم تو ابھی گُلستاں مئے خانہ بنے
آنکھ جس پھول پہ ڈالو وہی پیمانہ بنے

میں جام اٹھاتا ہوں تو انگڑائی لے
ممکن ہے کہ اس طرح بہار آ جائے

کہیں نہ مئے کدہ تاریکیوں میں چُھپ جائے
ابھی نہ شمع بجھاوؑ کہ رات باقی ہے

رہے نہ ہوش مجھے عمر بھر کا اے ساقی
کچھ اس طرح سے پلاوؑ کہ رات باقی ہے

پڑا ہی رہنے دو چوکھٹ پہ نور کو ساقی
اسے نہ ہوش میں لاوؑ کہ رات باقی ہے

No comments:

Post a Comment

You can comment here and report if there is anything on blog which you donot like.